پاکستان

ہنوز تحریر اسکوائر دور است

تحریر اسکوائر دراصل دنیا کا پہلا الیکٹرانک انقلاب تھا۔ وہاں جو کچھ بھی رونما ہوا، اسے شوشل میڈیا کے ذریعے منظم کیا گیا تھا۔

برصغیر پاک و ہند میں ایک محاورہ مشہور ہے کہ ہنوز دلّی دور است، جس کا سادہ اردو ترجمہ تو یہ ہوگا کہ ابھی دلّی دور ہے، لیکن اس کا استعمال ہر اُس موقع پر کیا جاتا ہے، جبکہ نتیجے میں دیر ہو یا پھر توقع کے برعکس ظاہر ہونے کا امکان ہو۔

کہا جاتا ہے کہ اس محاورے کا آغاز اس وقت سے ہوا جب دلّی کے سلطان غیاث الدین تغلق نے خواجہ نظام الدین اولیاء کو ایک خط میں دلی چھوڑنے کا حکم دیا تھا....خواجہ نظام الدین نے اپنے خادم سے کہا کہ اس خط کی پیشانی پر ’ہنوز دلی دور است‘ لکھ کر واپس بھیج دو۔

اس سے پہلے کہ بادشاہ اپنے حکم پر طاقت کے زور سے عمل کرواتا اور خواجہ نظام الدین کو دلی چھوڑنے پر مجبور کرتا، بادشاہ کو دنیا چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اس کا نیا محل ڈھے گیا اور وہ اس کے اندر دب کر مر گیا۔

اس مشہور محاورے کو انگریزی میں شاہ نواز کھر نے بہت ہی خوبصورتی سے استعمال کیا ہے۔ اتوار چھ جنوری کو ڈان ڈاٹ کام پر شایع ہونے والے اپنے مضمون کا عنوان انہوں نے مذکورہ محاورے سے متاثر ہوکر رکھا ہے: تحریر اسکوائر ابھی دور ہے۔

تحریر اسکوائر نے جنوری 2011ء میں عالمی شہرت حاصل کی، جب مصر کے لاکھوں شہریوں نے قاہرہ کے اس چوک پر اکھٹا ہوکر مصرکے صدر حسنی مبارک سے استعفے کا مطالبہ کیا۔

یہ قاہرہ کا وہ چوک ہے، جسے سب سے پہلے نہر سوئز کی تعمیر کا تاریخی کارنامہ انجام دینے والے حکمران اسماعیل پاشا کا نام دیتے ہوئے اس کا نام ’میدانِ اسماعیلیہ‘ رکھا گیا۔

پھر انقلاب مصر کے بعد 1919ء میں اسے آزادی چوک کہا جانے لگا، بالآخر 1952ء میں اسے تحریر اسکوائر کا نام نصیب ہوا۔

چین کا تیان من اسکوائر بھی کچھ ایسے ہی مظاہرے کے لیے مشہور ہے، جہاں چوبیس برس قبل سیاسی نظام میں اصلاحات کا مطالبہ کرنے والے ہزاروں افراد جمع ہوئے تھے۔

تین ہفتے متواتر جاری رہنے والے ان مظاہروں کو چینی حکومت نے انقلاب کے خلاف بغاوت قرار دے کر فوجی قوت کے ذریعے کچل دیا تھا۔

چنانچہ اس لحاظ سے تحریر اسکوائر کی اہمیت تیان من اسکوائر سے کہیں زیادہ ہے کہ یہاں اکھٹا ہونے والے مظاہرین نے جانی نقصان کے باوجود اپنا مقصد حاصل کرلیا تھا۔

تیان من اسکوائر کی پہلی وجۂ شہرت یہ ہے کہ اسی مقام پر  یکم اکتوبر 1949ء کو ماوٴزے تنگ نے چین کے قیام کا اعلان کیا تھا۔

شاہنواز کھر لکھتے ہیں: ’تحریر اسکوائر کا لفظ، کینیڈین شہریت کے حامل پاکستانی مذہبی اسکالر طاہر القادری کی پاکستان واپسی کے بعد پاکستان کی سیاسی لغت میں داخل ہوا ہے۔

جب انہوں نے اعلان کیا کہ وہ چودہ جنوری کو دنیا کا سب بڑا احتجاجی مظاہرہ تحریر اسکوائر اسلام آباد میں برپا کریں گے۔‘

’قادری کا دعویٰ تھا کہ وہ چالیس لاکھ لوگوں کو اسلام آباد لے کر آئیں گے، حالانکہ مصر کے معروف تحریر اسکوائر پر مظاہرین کی تعداد جب اپنے نقطۂ عروج پر جا پہنچی تھی تو بھی رپورٹس کے مطابق تین لاکھ سے زیادہ نہ تھی۔‘

تحریر اسکوائر پر جمع ہونے والے مظاہرین کو کامیابی اسی حد تک ہی ملی کہ وہ صدر حسنی مبارک کے تیس سالہ جبری اقتدار کا خاتمہ کر پائے، لیکن سوال یہ ہے کہ تحریراسکوائر کا نام پانے والے ان مظاہروں سے کیا مصر میں کسی مثبت تبدیلی کا بھی آغاز ہوسکا ہے یا نہیں؟

اس لیے کہ وہاں تحریر اسکوائر کے انقلابی مظاہروں کے بعد دائیں بازو کی مذہبی انتہا پسند جماعتوں کو غلبہ حاصل ہوچکا ہے اور وہ مصری معاشرے کو مذہب کی ان تشریحات کے تحت چلانا چاہتی ہیں، جو اُن کے خیال میں درست ہیں۔

لیکن ان تشریحات کے حوالے سے روشن خیال مصری باشندے ہی تحفظات کا اظہار نہیں کر رہے ہیں، بلکہ کئی مذہبی مکتبہ فکر بھی شدید اختلاف رکھتے ہیں۔

تحریر اسکوائر برپا ہونے کا پس منظر یہ تھا کہ تیس سالہ شخصی حکمرانی نے مصری معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچادیا تھا، لاکھوں بے روزگار نوجوان مایوسی کا شکار تھے اور افراط زر اپنی بلند ترین سطح تک پہنچ گیا تھا۔

اس طرز کے حالات سے کسی حد تک پاکستان کے شہری  بھی دوچار ہیں، لیکن شخصی حکمرانی کا خاتمہ ہوئے اب پانچ سال ہونے کو آئے ہیں اور جمہوریت نے ابھی گویا گھٹنوں گھٹنوں چلنا شروع کیا ہے۔

چنانچہ بہت سے لوگ یہ سوال کر رہے ہیں کہ پاکستان میں تحریر اسکوائر برپا کرنے کی آخر کیا ضرورت پیش آگئی ہے، جبکہ انتخابات بھی بس چند ماہ کی دوری پر رہ گئے ہیں۔

شاہنواز کھر تحریر کرتے ہیں: ’مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے بیالیس برس کے عبدالصمد آج کل پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ ان کے چہرے پرمسکراہٹ دوڑ جاتی ہے جب وہ بعض پاکستانیوں کی زبان سے تحریر اسکوئر کا نام سنتے ہیں۔

وہ اسلام آباد کے ایک آؤٹ ڈور کیفے میں بیٹھے تھے، اُنہوں نے اپنے مخصوص عربی لہجے میں یہ دعویٰ کیا کہ: باکستانی (پاکستانی)تحریر اسکوائر کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔‘

انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ:’باکستانی(پاکستانی)ہی نہیں دنیا کا کوئی بھی فرد نہیں جان سکتا کہ تحریر اسکوائر میں کیا ہوا، جب تک کہ خود مصر کے لوگ یہ نہیں جان لیتے کہ تحریر اسکوائر سے ان کے ملک میں کیا تبدیلیاں آئی ہیں۔‘

شاہنواز کھر کے مطابق جب کیفے میں صمد کے اردگرد لوگ ان کی باتیں سن کر کنفیوژ ہونے لگے اور صمد نے ان کے چہرے پر اس کنفیوژن کا مظاہرہ دیکھا تو کہنے لگے: ’تحریر اسکوائر دراصل دنیا کا پہلا الیکٹرانک انقلاب تھا۔ وہاں جو کچھ بھی رونما ہوا، اسے شوشل میڈیا کے ذریعے منظم کیا گیا تھا۔

اب لیڈر اور سیاسی جماعتیں اس تحریک کو اپنی کوششوں کا مرہون منت قرار دے رہی ہیں، کہ وہاں جو کچھ بھی ہوا وہ ان کی وجہ سے ہوا، جبکہ یہ درست نہیں ہے۔‘

ہم بھی صمد کے خیال سے متفق ہیں کہ ٹوئیٹر اور فیس بک کو مصر کے اس انقلاب کا اصل ہیرو کہا جاسکتا ہے۔ تیونس میں بھی شوشل میڈیا کی انہی دونوں ویب سائٹس نے نوجوانوں اور انقلاب پسند لوگوں  کو منظم ہونے میں بھرپور مدد دی تھی۔

تیونس میں محمد بوعزیزی نامی ایک تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوان ملازمت نہ ملنے کے سبب ٹھیلے پر سبزی بیچا کرتا تھا، لیکن ایک کرپٹ پولیس افسر نے رشوت نہ دینے کی بنا پر اُس سے روزگار کا یہ وسیلہ بھی چھین لیا، چنانچہ مایوسی کے عالم  میں اس نے خود سوزی کر کے خود کو ہلاک کر ڈالا۔

خود سوزی کے اس المناک واقعے کی وڈیو فیس بک پر پوسٹ کی گئی۔ جہاں سے اس وڈیو کو زبردست شہرت ملی، اس کا نتیجہ عوام کے  غم و غصے  کی صورت میں ظاہر ہوا۔

عوام کے احتجاجی مظاہرے اس حد تک بڑھتے گئے کہ تیئس سال سے برسراقتدار صدر زین العابدین کو حکومت چھوڑ کر فرار ہونا پڑا۔

مصر میں تحریر اسکوائر کے عظیم الشان انقلابی مظاہرے کو منظم کرنے میں بھی فیس بک اور ٹوئیٹر نے ہی بنیادی کردار ادا کیا تھا۔

جب بے روزگاری کے ہاتھوں ستائے ہوئے چار مصری نوجوانوں نے حالات سے تنگ آکر خود سوزی کی، تو اس افسوسناک واقعے کی وڈیو بھی فیس بک پر اپ لوڈ کی گئی۔

پھر نوجوانوں نے اس وڈیو کے ساتھ ایک دوسرے کو یہ پیغام بھیجنا شروع کیا کہ حُسنی مبارک کی جابرانہ شخصی حکومت کے خلاف 25جنوری کو تحریر اسکوائر پر اکھٹا ہو کر بنیادی حقوق کی بحالی کا مطالبہ کیا جائے۔

مصری نوجوانوں نے اس وڈیو کے ساتھ مصری قوم کو یہ پیغام دیا کہ اگر آپ خود کو ایک انسان سمجھتے ہیں، باعزت زندگی گزارنے کے خواہشمند ہیں اور حسنی مبارک کی جابرانہ حکومت سے نجات چاہتے ہیں تو آپ بھی تحریر چوک پر آئیے، ہم سے ہاتھ ملائیے، ہمارے قدم سے اپنا قدم ملائیے اور اس حکومت کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیے۔

خود سوزی کرنے والے بے روزگار نوجوانوں کی ویڈیو کو فیس بک پر دیکھنے کے بعد مصری نوجوانوں کے اندر گویا برسوں سے دبا ہوا ایک آتش فشاں سا پھٹ پڑا، پھر دنیا نے دیکھا کہ تحریر اسکوائر پر لاکھوں مصری نوجوانوں، بوڑھوں، بچوں اور خواتین نے اکھٹا ہوکر حسنی مبارک کو رخصت ہونے پر مجبور کردیا۔

یہاں ایک حیرت انگیز امر یہ بھی سامنے آتا ہے کہ 2011ء سے قبل تک  مصر میں انٹرنیٹ کا استعمال زیادہ نہیں تھا، لیکن تحریراسکوائر کے مظاہرے کے آغاز کے ساتھ ہی ٹوئیٹر پر ٹویئٹس کی تعداد میں گیارہ گنا اضافہ ہوا اور ساڑھے تیرہ لاکھ سے زیادہ افراد نے ٹوئٹر پرانقلابی پیغامات پوسٹ کیے۔

جب حسنی مبارک کو احساس ہوا کہ شوشل میڈیا کی وجہ سے نوجوان اس کی جابرانہ حکومت کے خلاف اکھٹا ہوئے ہیں تو اس نے پہلے تو فیس بک اور ٹوئٹر پر پابندی لگائی پھر بعد میں انٹرنیٹ کو بھی ممنوع قرار دے دیا۔

پھر بھی اس کا بس نہ چلا تو اس نے گوگل کے مارکیٹنگ آفیسر سعید عباس غنیم کو گرفتار کرلیا، لیکن مجبوراً گیارہ دنوں کے بعد اُسے رہا کرنا پڑا۔ رہائی کے بعد وہ بھی تحریر اسکوائر پہنچ گیا جہاں لاکھوں لوگوں نے اس کا نہایت گرمجوشی کے ساتھ خیرمقدم کیا۔

شاہنواز کھر لکھتے ہیں : ’صمد کے بقول جس طرز کا ماحول قاہرہ میں ان دنوں موجود تھا، اسلام آباد میں ایسا کچھ نہیں ہے۔‘

اور ہم سمجھتے ہیں کہ صمد کا یہ تجزیہ غلط بھی نہیں ہے، اس لیے کہ یہاں آئے دن کہیں مذہب کے نام پر، کہیں نسل کے نام پر تو کہیں اپنی ضد، جہالت اور ظلم وبربریت کے اظہار کے طور پر کتنے ہی لوگوں کو ہمارے ہاں زندہ جلا دیا جاتا ہے۔

مذہب کے نام پر ہونے والے اس طرز کے بدترین ظلم کو ظلم کہنا بھی یہاں بعض حالات میں خود اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہوسکتا ہے، اس لیے کہ لوگوں کی اکثریت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ یہی سلوک ہونا چاہئیے۔

جبکہ وڈیروں، سرداروں، چوہدریوں اور دیگر زورآوروں کے مظالم کے خلاف وقتی طور پر لوگ آواز ضرور اُٹھاتے ہیں، لیکن جلد یا بدیر یہ آوازیں دم توڑ دیتی ہیں، میڈیا میں بھی ایسے بہت سے واقعات کا فالو اَپ نہیں ہوتا۔

چنانچہ تحریر اسکوائر کے انقلابی اجتماع کی کوئی صورت پاکستان میں ظاہر ہو، اس حوالے سے مشرق وسطیٰ کے صمد سمیت بہت سے پاکستانیوں کے شکوک درست معلوم ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ ایک عوامی اجتماع تھا، لیکن ہمارے ہاں کسی پشت پناہی کے بغیر ایسے کسی اجتماع کا تصور کرنا ابھی شاید ممکن نہ ہو۔

شاہنواز کھر لکھتے ہیں کہ صمد نے اپنی ٹیبل کے اردگرد اکھٹا ہوجانے والے لوگوں سے دریافت کیا کہ ’حال ہی میں تحریر اسکوائر پر جو احتجاج ہوا وہ موجودہ صدر مرسی کی آئینی اصلاحات کے ردعمل میں تھا۔

مصر کی سول سوسائٹی نے براہ راست مذہبی جماعتوں سے اسٹریٹ پر مقابلہ کیا اور انہیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا، لیکن کیا پاکستان کی سول سوسائٹی مذہبی جماعتوں کا مقابلہ اسی طرح اسٹریٹ پر کرسکتی ہیں؟‘

صمد کے ارد گرد جمع ہونے والے افراد نے گفتگو میں شریک ہوتے ہوئے مختلف سوالات کیے، ان میں سے زیادہ تر طاہر القادری کے بارے میں جاننا چاہتے تھے، جنہوں نے اُن کے خیال میں تحریراسکوائر کی گویا فرنچائز لے رکھی ہے۔

بتیس سالہ عدنان نے، جو امریکہ میں تعلیم حاصل کرچکے ہیں طاہر القادری کا تعارف کچھ اس طرح کروایا: ’میں نے قادری کی کچھ وڈیوز شوشل میڈیا پر دیکھی ہیں، وہ ایسے لوگوں سے بات کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں جو صدیوں پہلے دنیا میں موجود تھے۔‘

ایک صحافی جو صمد کے ساتھ کی ٹیبل پر موجود تھا، نے کہا کہ: میڈیا نے قادری کے خیالات کی پذیرائی نہیں کی ہے، اگرچہ ان کی باتیں عوامی طرز کی ہیں۔ انہوں نے ایسے الفاظ استعمال کیے ہیں جو شہری علاقوں کے لوگوں کو متاثر  کرسکتے ہیں۔ مثلاً اقتصادی بدحالی، کرپشن، جاگیردارانہ نظام وغیرہ وغیرہ۔

صمد نے سوال کیا کہ ’تو کیا یہ آپشن کام نہیں کرپائے ہیں؟‘

عدنان کا کہنا ہے:’میں کسی ایک فرد کو بھی نہیں جانتا جو ان کے نظریات سے متاثر ہوا ہو۔‘

صحافی نے صمد کو بتایا کہ ’فوج کے ترجمان نے واضح کیا کہ فوج جمہوری نظام کی مضبوطی کے لیے کام کرتی رہے گی۔‘

صمد نے پوچھا: ’پھر قادری کے پاس کون سے آپشن  ہیں؟‘

شاہنواز لکھتے ہیں کہ صمد کے ساتھ گفتگو میں شریک لوگوں کا اس نکتے پر اتفاق تھا کہ ان کے پاس کوئی آپشن نہیں ہیں۔‘

’لیکن اسلام آباد میں 14 جنوری کو جو کچھ بھی ہوگا، وہ کسی صورت تحریر اسکوائر نہیں ہوگا۔‘ صمد نے اپنی بات پر اصرار کیا۔

ہنوز تحریر اسکوائر دُور است۔ (تحریر اسکوائر ابھی دور ہے)عدنان نے کہا۔‘

تحریر اسکوائر کے پاکستان میں برپا ہونے کے بعد کیا کیا نتائج ظاہر ہوتے ہیں، یہ تو چودہ جنوری کو ہی معلوم ہوسکے گا، لیکن طاہر القادری تحریر اسکوائر کے حوالے سے خاصے جذباتی ہوچکے ہیں۔

انہوں نے پنجاب گورنمنٹ کو وارننگ دی ہے کہ اگر ان کے کارکنوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری رہا تو وہ اپنا مارچ لاہور میں ہی برپا کردیں گے۔

شاید وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اصلی تے وڈا تحریر اسکوائر وفاقی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے برپا نہ کرسکے تو پھر منی تحریر اسکوائر صوبائی حکومت کے خلاف لاہور میں ہی منعقد کرکے اپنا دل ٹھنڈا کرلیں گے۔