نہ کھایا پیا نہ گلاس توڑا، بارہ آنے
اسلام آباد: تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری پچھلے چار دنوں سے ملک کے حکمرانوں کو یزید اور دھرنے کے شرکاء کا حسینی قافلہ قرار دے رہے تھے، بالآخر اُن کو انہی حکمرانوں کے ساتھ معاہدہ کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔
اب اس بات کو دلچسپ کہا جائے گا یا افسوسناک کہ دو روز قبل جب ان کے خطاب کے دوران سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی خبر آئی تھی، جس میں وزیراعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف کو ایک جاری کیس کی سماعت کے دوران گرفتار کرنے کا حکم جاری کیا تھا تو انہوں نے فرمایا تھا کہ نصف کامیابی ہوگئی ہے اور اب نصف رہ گئی۔ لیکن کل دنیا نے دیکھا کہ حکومت کی جانب سے قادری کے پاس جانے والے مذاکراتی وفد کے ساتھ ان کے معاہدے پر اُسی وزیراعظم نے ہی دستخط کیے۔ گویا کہ خود کو حسینی مشن کا علمبردار اور حکمرانوں کو یزید کے پیروکار قراردینے کے بعد انہوں نے انہی یزیدی حکمرانوں سے بیعت ہی کر ڈالی۔ حالانکہ ایک دن پہلے تک تو وہ وارننگ دے رہے تھے کہ ناصرف اسمبلیاں تحلیل کردی جائیں بلکہ حکمران استعفے دیں تب ہی وہ دھرنا ختم کریں گے۔لیکن نہ تو اسمبلیاں تحلیل ہوئیں اور نہ موجودہ حکمران رخصت ہوئے اور ایک وقت ایسا آیا کہ قادری کے پاس ان ہی لوگوں سے مذاکرات کا راستہ ہی باقی نہیں رہا جن کو وہ گزشتہ تیئس دسمبر دوہزار بارہ سے مسلسل چور اور ڈاکو قرار دے رہے تھے۔
قادری کے اس میگا ایونٹ کا اسپانسر کون تھا اور کس نے اس سے حقیقی معنوں میں فائدہ اُٹھایا وہ بھی جلد یا بدیر سامنے آ ہی جائے گا، لیکن یہ بات تو طے ہے کہ چودہ جنوری سے لے کر کل سترہ جنوری تک کے عرصے میں عوام کے ساتھ وہی ہوا کہ کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے۔۔۔لیکن عوام نے تو گلاس بھی نہیں توڑا اور بارہ آنے کی چپت بھی کھانی پڑی۔ ان چار دنوں میں ملکی معیشت جو پہلے ہی زبوں حالی کا شکار ہے، شدید دباؤ سے دوچار رہی۔ کاروباری سرگرمیاں اگر ماند نہیں پڑیں تو ٹھہراؤ کی کیفیت ضرور طاری رہی۔
بہت سے تجزیہ نگار اس تمام ایونٹ کو نہایت پُرامن قرار دے رہے ہیں، بلاشبہ قادری کا لانگ مارچ اور تین روزہ دھرنا پُرامن رہا، لیکن اس کا تمام کریڈٹ ہمارے خیال میں تو حکمرانوں کی حکمت عملی کو دیا جانا چاہیئے کہ انہوں نے کسی قسم کا ایکشن نہیں لیا ، بلکہ لانگ مارچ اور دھرنے کے منتظمین سے مذاکرات کے دوران اعلیٰ حکام ان کے بہت سے مطالبات تسلیم کرتے رہے۔ اس دوران ایک موقع ایسا آیا تھا کہ جب صورتحال خراب ہونے جارہی تھی جب پولیس کے مطابق دھرنے کے شرکاء میں سے کسی نے فائرنگ کی جس کے جواب میں پولیس نے شیلنگ کی، لیکن وزیر داخلہ رحمان ملک نے فوراً ہی یہ ہدایات جاری کیں کہ طاہرالقادری ہمارے مہمان ہیں اور ان کی حفاظت کرنا پولیس کا فرض ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ہم چاہتے کہ کسی قسم کی کوئی پُرتشدد کارروائی نہ ہو۔پھر یہی رحمان ملک کے ہاتھ سے جب صبر کا دامن چھوٹنے لگا اور انہوں نے وارننگ دے ڈالی کہ کل شام تک اگر سڑکیں خالی نہ کی گئیں تو پھر ایکشن لیا جائے گا تو صدر پاکستان آصف علی زرادری نے اُن کے اس بیان کا سخت نوٹس لیا اور انہیں اس حوالے سے بیان دینے سے روک دیا گیا۔
کم ہی لوگ تھے جو قادری کے لانگ مارچ اور دھرنے کے متعلق بہت زیادہ پُرامید نظر آئے، لیکن اس دوران سازشی تھیوریوں کا منجن بیچنے والوں کا کاروبار بھی خوب چمکا۔ جس میں سب سے زیادہ پذیرائی اُس تھیوری کو ملی جس میں قادری کا تعلق کینیڈین کمپنی بیرک گولڈ سے جوڑا گیا تھا۔ اس کمپنی نے بلوچستان کی سونے کی کان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی تھی، سپریم کورٹ نے نے اس کا لائسنس کی منسوخ کردیا ہے اور اس کی سرمایہ کاری خطرے میں پڑ چکی ہے۔ نون لیگ کے بعض اراکین اور رہنما بھی قادری کی اس تحریک کو زرداری کے پلان کا ایک حصہ قرار دیتے رہے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ اس کے تحت نون لیگ کو اقتدار سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔کچھ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ زرادری، قادری کے اس مصنوعی انقلاب کے ذریعے اقتدار فوج کے حوالے کردیں گے تاکہ اگلے انتخابات کے ذریعے نوازشریف اقتدار نہ سنبھال سکیں۔ بہت سے لوگ قادری کو فوج کے منصوبے کا ایک کردار قرار دیتے رہے، جس کے ذریعے ملک میں بحرانی کیفیت پیدا کرکے فوج اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔
اور یہ خیال عام لوگوں کا ہی نہیں تھا بلکہ حکمران جماعت کے بہت سے لوگ بھی اسی طرز کی قیاس آرائی کررہے تھے۔ کل رائٹر نے اپنی ایک رپورٹ میں بھی فوج کے کردار کے حوالے سے بات کی تھی، مذکورہ رپورٹ میں رائٹر کے تجزیہ نگار نے لکھا تھا کہ: ایک شعلہ بیان مذہبی عالم کا قومی اسمبلی کے سامنے ہزاروں افراد کے ہمراہ احتجاجی دھرنا جاری ہے اور وہ مسلسل اس بات پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ اپنے مطالبات پورے ہونے سے قبل وہاں سے نہیں اُٹھیں گے، اس صورتحال نے حکمران جماعت کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ کہیں پاک فوج کی جانب سے کوئی نرم بغاوت کے لیے تیار منصوبہ نہ ہو۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ قادری اس طرح کے کسی مشن کے بہترین امیدوار ہوسکتے ہیں۔ ایک تجربہ کار مقرر ہونے کی وجہ سے انہوں نے کرپشن کے خلاف اپنی جذبات میں تلاطم پیدا کردینے والی تقاریر سے لوگوں کے اندر ایسی توانائی بھردی ہے کہ وہ تین دن سے ان کے کہنے پر کھلے آسمان کے نیچے سخت سردی میں دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ایک معروف سیاسی لیڈر محمود خان اچکزئی جو سیاست میں فوج کے کردار پر ہمیشہ سے تنقید کرتے آئے ہیں، کا کہنا ہے کہ ‘صورتحال خطرناک رُخ اختیار کرتی جارہی ہے اور شواہد اشارہ کرتے ہیں کہ تیسری قوت اپنی روایت کے تحت غیرآئینی طریقے اپنا سکتی ہے۔’
اور ان قیاسات کو سہارا اس بات سے ملتا ہے کہ قادری نے انیس سو ننانوے میں فوج کی طرف سے ملک کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے عمل کی بھر پور حمایت کی تھی۔ ان کے موجودہ مقاصد کو دیکھتے ہوئے بہت سے سیاستدانوں کو شبہ ہے کہ قادری موجودہ حکومت کے خاتمے اور نگران حکومت میں آرمی کے کردار کے لیے راستہ نکالنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
رائٹر کی رپورٹ میں تحریر تھا کہ پاکستان اپنی آزادی کے بعد پیسنٹھ سالوں میں سے نصف سے زیادہ برس فوجی حکمرانی دیکھ چکا ہے۔ اس کے علاوہ ناقدین کا کہنا ہے کہ حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی فوج کے ساتھ تصادم کا ایک طویل ریکارڈ رکھتی ہے، اکثر اپنی کوتاہیوں پر بھی یوں پردہ ڈالتی رہی ہے کہ فوج نے اس سے ناجائز طور پر اقتدارچھینا تھا اور جب اس بات پر غور کیا جائے کہ اوّل تو قادری کینیڈا میں چھ سال گزارنے کے بعد اُس وقت واپس پلٹے ہیں جب کہ الیکشن کے انعقاد میں صرف چند ماہ ہی باقی رہ گئے ہیں، دوسرےیہ کہ انہوں نے انیس سو ننانوے میں آرمی چیف پرویز مشرف کے اقتدار پر قبضہ کرنے کی کھلی حمایت کی تھی تو بہت سے ذہنوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجنا غلط بھی نہیں ہے۔
ایک آرمی آفیسر نے ذاتی طور پر رائٹر کو بتایا کہ موجودہ حکمرانوں مسلح دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے اہل نہیں ، یہ اشیائے خوردونوش کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور مہنگائی کو روکنے سے قاصر رہے ہیں اور ملکی معیشت کو اس سطح پر لانے میں بھی ناکام ثابت ہوئے ہیں جس سطح پر وہ مارچ دوہزار آٹھ میں اس کے اقتدار سنبھالنے کے وقت تھی۔ ایک فوجی افسر نے رائٹر کو اپنی ذاتی رائے دیتے ہوئے کہا کہ فوج کی خواہش نہیں ہے کہ وہ اقتدار پر قبضہ کرے لیکن اُسے اگر مجبور کیا گیا کہ وہ مختلف سیاسی دھڑوں کے درمیان ثالثی کردار ادا کرسکتی ہے یا پھر اُس صورت میں کہ قادری کا احتجاج کوئی بحرانی کیفیت پیدا کرنے کا سبب بن جائے ۔ افسر نے کہا کہ ‘جب صورتحال زیادہ بگڑ جائے تو ممکن ہے کہ آرمی مداخلت کی ضرورت محسوس کرے ۔’
لیکن شکر ہے کہ صورتحال اس حد بگڑنے نہ پائی اور معاملہ ختم ہوگیا۔ اس طرز کے واقعات سے فائدہ اُٹھانے والوں میں ہمارے ہاں کا نومولود میڈیا بھی آگے آگے رہتا ہے۔ اُس کو بھی اس طرز کے واقعات سے خوب اچھی خوراک ملتی رہی ہے، اسی لیے ایک عشرے سے بھی کم عرصے میں اس کا اچھا تن و توش بن گیا ہے، بلکہ اب تو اس کا شمار بھی ملک کے اسٹیک ہولڈرز میں کیا جانے لگا ہے۔ شاید چار دن کے اس میگا ایونٹ سے ہمارے میڈیا کو گویا پورے سال کی خوراک تو مل ہی گئی ہوگی؟ ہمارے ہاں نہ تو آج تک اس کا کوئی سائنسی تجزیہ ہوسکا ہے اور نہ ہی ہونے کا امکان ہے، اگر ہو تو پتہ چلے کہ میڈیا کے اس مسلسل باخبر رکھنے کی کوششوں نے عوام کی اکثریت کو کس حد تک بےحس بنادیا ہے۔