پاکستان

انسدادِ دہشت گردی کا ترمیمی بل

اس مجوزہ بل کے ایکٹ بننے کے بعد وفاقی حکومت مارچ کے وسط تک قومی انسداد دہشت گردی اتھارٹی قائم کرے گی۔

اسلام آباد: کل بروز 31جنوری، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف ایک قومی کوشش کے طور پر ایک اہم اقدام یہ اُٹھایا گیا کہ حکومت نے قومی انسداد دہشت گردی اتھارٹی کے قیام کا بل قومی اسمبلی میں پیش کردیا ہے، جو بیرون ملک سے امداد اور رہنمائی دونوں حاصل کرسکے گی۔

اسی دن حکومتی اتحاد میں شامل متحدہ قومی موومنٹ نے کراچی میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے خلاف احتجاجاً واک آؤٹ کیا تھا۔

اس کے علاوہ اسمبلی کو اسٹینڈنگ کمیٹی برائے داخلہ کی ایک رپورٹ بھی پیش کی گئی ، جس میں ایک پُرانے حکومتی بل کی منظوری کی سفارش کی گئی تھی، جس میں دہشت گردی کے لیے سرمایہ کی فراہمی پر نظر رکھنے پر زور دیا گیا تھا، یہ بل موجود ہ اینٹی ٹیررازم ایکٹ کو مزید مستحکم بناتا ہے ۔

انسداد دہشت گردی کا نیا بل وزیرداخلہ رحمان ملک کی غیر موجودگی میں وزیر دفاع نوید قمر نے پیش کیا، یہ بل اسٹینڈنگ کمیٹی برائے داخلہ کو مزید جائزے کے لیے بھیج دیا گیا ہے، جو جلد ہی اس کو منظور کرلے گی، اس  لیے کہ اس کا مسودہ قومی اسمبلی سے منظور ہوچکا ہے ۔

حکومت مارچ کے وسط تک اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے سے قبل انسداد دہشت گردی کی اتھارٹی کے قیام کی پابند ہوگی۔

بل کی ایک شق کے مطابق مجوزہ اتھارٹی کو بین الاقوامی معیار کے مطابق قائم کیا جائے  گا، اس اتھارٹی کی نگرانی وزیراعظم کی صدارت میں ایک بورڈ آف گورنر کرے گا، جس میں اہم وفاقی وزراء ، صوبائی وزرائے اعلیٰ، انٹیلی جنس اداروں اور صوبائی محکمۂ پولیس کے سربراہان شامل ہوں گے۔ حکومتی سیکریٹریز کی ایک ایگزیکٹیو کمیٹی مذکورہ بورڈ کے فیصلوں اور حکمت عملی پر عملدرامد کو یقینی بنانے کی ذمہ دار ہوگی۔

مجوزہ بل کے مسودے کی تیئسویں شق میں کہا گیا ہے کہ “پاکستان میں موجود دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات اُٹھائے جائیں گے” اور یہ اتھارٹی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف کاروائیوں کو مؤثر بنانے میں ان کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے میں ایک مرکزی کردار ادا کرے گی۔

اس کے ساتھ مجوزہ اتھارٹی کا کام خفیہ معلومات اور اطلاعات وصول کرنا اور جمع کرنا اور تمام اسٹیک ہولڈر کے ساتھ ان کا تبادلہ کرنا تاکہ خطرات سے بہتر طریقے سے نمٹا جاسکے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے انسداد کے لیے مربوط اور جامع حکمت عملی کی تیاری، کارروائی کی منصوبہ بندی ، ریسرچ کی تکمیل اور “بین الاقوامی اداروں کے ساتھ رابطہ کرنا تاکہ انتہاپسندی اور دہشت گردی کے حوالے سے ان کا تعاون حاصل کیا جاسکے۔ ”

مذکورہ بل کے مطابق اتھارٹی کے فنڈ کے ذرائع وفاقی حکومت کے بجٹ میں شامل کیے جائیں گے۔ “حکومت کے مقررہ طریقہ کار کے تحت بین الاقوامی اداروں اورتنظیموں سے گرانٹس کا حصول”۔