Dawn News Television

شائع 24 فروری 2013 07:00am

ایک اور چوبیس فروری


  is blog ko sunne ke liye play ka button click karen | اس بلاگ کو سننے کے لئے پلے کا بٹن کلک کریں [soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/80062093" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]


آج چوبیس فروری ھے۔ یہ وہ دن ہے کہ جب پچھلے سال اسی تاریخ پہ رنکل اپنے گھر سے یوں اٹھائی گئی، جیسے کسی کے گھر ڈاکہ ڈال کر جلدی جلدی ڈاکے کی چیزیں اٹھائی جاتی ہیں۔ اس کا دوپٹہ اور پاؤں میں پہنی ایک چپل گھر کی دھلیز پر ھی رہ گئی تھیں۔

اغوا کے بعد جب پہلی بار وہ میرپور ماتھیلو کی عدالت میں پیش کی گئی تواس نے واپس والدین کےپاس جانے کی درخواست کی۔ عدالت نے اسے بجائے والدین کے پاس بھیجنے کے کہا کہ ’وہ ابھی بوکھلاہٹ کا شکار ہے‘، اس لئے اسے دو ایک دن سوچنے کے لئے دے کر پھر سے ان ھی بندوق برداروں کے حوالے کر دیا گیا، جن پہ اغوا کا الزام تھا۔ یہ شاید عدالت کی اپنی بوکھلاھٹ تھی۔

اٹھاٰیس فروری کو اگلی مرتبہ کچھری میں حاضری کے وقت، اپنے بیان میں کلمہ پڑہ کر رنکل سے فریال شاھ بننے میں اس نے دس منٹ سے بھی کم وقت لیا اور قبول اسلام کے اس بیان پہ اسے ہتھیاروں کے پہرے میں کچہری تک لانے والے سینکڑوں بندوق بردار و مریدانِ درگاہِ بھرچونڈی نے اپنے ہتھیاروں کے منہ کھول ڈالے اور عدالت کے احاطے میں ہی اپنی خوشی کا اظہار کر ڈالا۔ یہ ایک نئی فتح تھی۔

فتح کا یہ جشن سارے شہر میں ہوائی فائرنگ کی گونج میں گشت کرتا، بی بی فریال کو لے کر جلوس کی شکل میں درگاھ بھرچونڈی کے گدی نشین و پیپلز پارٹی کے میاں مٹھو کی طرف روانہ ہوا۔ بی بی فریال انہی کی مہمان تھی اور انہی کے پہرے میں عدالت تک پہنچی تھی۔

دراصل رنکل دیوی کو بی بی فریال بنانے کا شرف کویی پہلا تمغہ نہ تھا جو اس درگاھ شریف کو حاصل ھوا تھا۔ سندھ میں تقسیم سے پہلے ہندو مسلم فساد سے مشہور مسجد منزل گاہ کے واقعے سے لیکر ہندو گایک بھگت کنور رام کے قتل تک کے واقعات میں اس درگاہ شریف کے حوالے بار بار دھرائے جاتے ہیں۔

تقسیم سے قبل بھی اس درگاھ پہ بھائی بندوں کو کلمہ گو بنانے کی مشق عام تھی اور تقسیم کے بعد باقی کی تقسیم کا کام بھی اب تک یونہئ جاری و ساری ہے۔

صحرائے تھر سے لیکر کشمور کے کونے تک سندہ میں یہ درگاہ کلمہ گو آبادی میں متواتر اضافے میں اپنی مثال آپ ہے۔ اس لیے اس مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ میں وہ سکول ماسٹر، رنکل کا والد کہاں تک یوں اٹھائی گئی بیٹی کی واپسی کی جنگ لڑتا۔ پھر ملا کی دوڑ مسجد تک ھی تو ہوتی ہے اسی طرح اگر یہ ستائی ہوئی خلق انسانی حقوق کی تنطیموں یا پھر میڈیا تک پہنچ جائے تو اتنا ضرور ہو جاتا ہے کہ کئی ایک سر پھرے انصاف دلانے کے اس انجانے جہاد کا بیڑہ اٹھا لیتے ہیں۔

دین اسلام سے بی بی فریال کی الفت تھی، نوید شاہ کا عشق سر چڑہ کر بول رہا تھا یا پھر معاملہ اغوا اور زبردستی والا ہی تھا کہ جس کا الزام بھرچونڈی کے گدی نشین میاں مٹھو پر لگ رہا تھا۔

شور زیادہ ہوا تووالیانِ درگاہ بی بی کو لے کر کراچی پریس کلب بھی پہنچے مگر یہاں بھی بی بی صاحبہ نے بھلا کیا بات کرنی تھی۔ بندوق باز مریدانِ درگاہ باہر گاڑی میں تھے تو والیانِ درگاھ اسکی بغل میں بیٹھے ہوئے تھے۔ خوف و ھراس کی ماری فریال بی بی کی اس منہ دکھائی اور پبلک میں پھر سے کلمہ شریف دھرانے کی رسم پر بھی جب سول سوسائٹی کا شورو غل ختم نہ ہوا تو بالآخر بڑی عدالت کو نوٹس لینا پڑا۔ وہ اور کچھ کہہ سکی ہو یا نہیں، سندہ ھائی کورٹ کے جسٹس باجوہ کے چیمبر میں اتنا ضرور کہہ گئی تھی کہ ’اس کے ساتھ ظلم ہوا ہے‘۔

چھبیس مارچ کو اسلام آباد کی بڑی عدالت میں وہ کورٹ نمبر ون میں چیختی، چلاتی رہ گئی کہ ’اسے شیلٹر ھاؤس نہیں، اپنی ماں کے پاس بھیجا جائے۔‘ مگر ماتھیلو کے جج کی طرح اس بڑے جج نے بھی اس چیخنے چلانے کو گھبراہٹ سمجھ کر اسکی ماں کے بجائے شیلٹر ھاؤس بھیج دیا تا کہ وہ سوچ بچار سے کام لے سکے۔

وہ بین کرتی ماں سے گلے تو نہ مل پائی کہ اسے مجرموں کی طرح دونوں بازوؤں سے خواتین سپاہی پکڑے ہوئے تھیں مگر اس نے روتی ماں کو چیخ کر اتنا ضرور کہا؛

’’اماں، کس سے انصاف مانگ رھی ھو۔ یہ مسلمانوں کا ملک ہے۔ یہاں نیچے سے لیکر اوپر تک سب آپس میں ملے ہوئے ہیں۔"

یہ نو مسلم فریال کی نہیں، رنکل کی فریاد تھی جو کورٹ روم کے شور میں دب گئی تھی۔ اگلی مرتبہ بیان بجائے کورٹ روم کے رجسٹرار کی آفس میں ہوا اور نومسلم لڑکی ماں باپ سےگلے ملنے کے بجائے پولیس کسٹڈٰی میں پیا گھر بھیجی گئی۔

کورٹ کی کہانی یہاں ختم ہویی مگر درد اور بے بسی کی کہانی کا یہ آغاز تھا کہ اب کسی کو کسی عدالت سے انصاف کی توقع نہیں رھی تھی۔ رنکل کے بعد آشا، لتا، ارونا، دیوی، بھگونتی، اور اب سلسلہ یہ شکل اختیار کر چکا ہے کہ ایک اور لڑکی درگا کا چچا میرے پاس برتھ سرٹیفیکٹ لاتا ہے، جس میں اسکی تاریخِ پیدائش دو ہزار ایک درج ہے۔ وہ نابالغ کمسن سڑک سے اٹھائی گئی تھی اور تیسرے دن اسکے اسلام قبول کرنے کی خبر مقامی اخبار میں چھپی تو وہ سٹپٹایا ہوا پوچھتا رہا کہ اب میرا کیس کون سی عدالت لڑے گی؟

عمرکوٹ کی کمسن وجنتی ریپ کا شکار ہوئی، اسکی دادی کل یہ کہتے کہتے رو پڑی تھی کہ اگر انصاف نہ ملا تو وہ بھی خاندان لیکر ہندوستان چلی جایے گی، اب ان کا دانہ پانی ختم ھوا چاھتا ہے کہ پاکستانی قوم اب مسلم امہ کا لبادہ اوڑھے اس سفر کو چل پڑی ھے، جہاں غیرمسلم پاکستانی کی شناخت کا کوئی خانہ نہیں ھے۔

آج پھر چوبیس فروری ھے ۔ کسی بااثر درگاہ و مدرسے کے بچوں پہ جوانی اترتی ھی ہوگی۔ کافرو! اپنی اپنی بچیاں سنبھالو، تمھاری بچیوں پہ الفتِ اسلام کا دور اترتا ھی ھوگا کہ پھر   سے نو مسلم لڑکیوں کی لسٹ کی تیاری ھے۔


Read Comments