اسلام آباد: پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے ، اہم اور کسی ممکنہ پیش گوئی سے ماورا عام انتخابات کیلئے پولنگ کا آغاز ہو گیا ہے۔
جمعرات کے انتخابی مہم کا اختتام تین جماعتوں کے رہنماؤں کے بیانات پر ختم ہوا جن میں بلاول بھٹو اور عمران خان نے انتخابی جلسے سے ویڈیو خطاب کیا جبکہ نواز شریف عوام سے براہ راست گفتگو کی۔
آج کے تاریخی دن 86,162,639 رجسٹرڈ ووٹرز ملک بھر میں پھیلے ہوئے 69,729 پولنگ سٹیشنز کا رخ کریں گے اور اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ یہ ووٹرز 268 نشستوں کے فاتح کا چناؤ کریں گے ( تاہم چار حلقوں میں الیکشن ملتوی ہوچکے ہیں۔ )
تین اہم جماعتوں کے رہنما بے چینی سے انتخابات کے نتائج کے منتظر رہیں گے ۔ ان میں رائے ونڈ میں نواز شریف، شوکت خانم ہسپتال میں عمران خان اور بلاول ہاؤس کراچی میں صدر آصف علی زرداری شامل ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی وہ دو اہم جماعتیں ہیں جن پر عسکریت پسندوں نے حملہ کیا لیکن خدشہ یہ بھی ہے کہ پی پی پی اپنی پانچ سالہ ناقص کارکردگی اور پارٹی کارکنوں کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑے گا۔
اس دوران دوہزار دو سے پاکستان مسلم لیگ نواز ( پی ایم ایل این) نے اپنی پوزیشن بہتر کی ہے۔ تاہم سیاسی پنڈتوں کے نزدیک پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) اس کےسامنے ایک مضبوط حریف بن کر اُبھری ہے۔
لیکن تین ہفتوں کی مختصر انتخابی مہم اورعوامی رحجانات کو دیکھتے ہوئے اب بھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ تاہم پنجاب میں پی ایم ایل این اور پی ٹی آئی ، دونوں نے بھرپور انداز میں جلسے کئے، ریلیاں نکالیں اور ایک دوسرے کی تضحیک بھی کی۔
پنجاب کے علاوہ بقیہ تینوں صوبوں میں انتخابات کے رنگ پھیکے رہے۔
خیبرپختونخواہ اور سندھ میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے اور بلوچستان میں علیحدگی پسند گروہوں نے تقریباً تمام اہم سیاسی جماعتوں کو الیکشن مرحلے میں محدود رکھا۔
ان جماعتوں کی الیکشن مہم گھر گھر مہم یا اسکائپ پر ویڈیو پیغامات کے ذریعے چلتی رہی۔
حالیہ خبروں کے مطابق یہ پاکستان کی خونریز ترین انتخابی مہم تھی جس میں تقریباً 117 افراد ہلاک ہوئے۔
ڈان کو دئیے جانے والے ایک حالیہ انٹرویو میں اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی انتخابات کو ' آزادانہ ، منصفانہ اور شفاف ' قرار دینے سے انکار کیا اور کہا کہ ( سب کیلئے) ہموار میدان کہا ں ہے؟
اندرونِ سندھ بھی پی پی پی کی انتخابی مہم یک رخی رہی کیونکہ پی پی پی کی موجودگی بہت کم رہی اور وہ بھی اویس ٹپی کی کوششوں کی وجہ سے ٹھٹھہ اور لاڑکانہ میں نظر آئی ۔
دوہزارسات میں بے نظیر بھٹو کی موت کے بعد پی پی پی بے منزل ہوتی گئی اور الیکشن مہم میں منظور وٹو، راجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی نے اپنے حلقوں سے باہر نکل کر مہم نہیں چلائی اور ان سب کے پیچھے سیکیورٹی خدشات ہی تھے۔
اس میں شک نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف وہ جماعت ہے جو بھرپور انداز میں ابھری ہے۔ کے پی کے کے بعض علاقوں اور پنجاب میں اس کے امیدواروں اور جلسوں نے لوگوں کو بہت متاثر کیا۔ تاہم اسے مڈل کلاس اور وہ بھی شہری علاقوں کی مڈل کلاس کی حمایت حاصل ہے۔ سوشل سائنسداں، اکبر زیدی نے پی ٹی آئی کو مڈل کلاس جماعت کہا ہے لیکن حامیوں کی وجہ سے نہ کہ اس کے امیدواروں کو دیکھ کر۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اتوار کے روز تک نشستوں کی تقسیم کی صورت واضح ہوجائے گی۔
پی ایم ایل این کے ایک رکن ( جو انتخاب نہیں لڑ رہے ) نے کہا ہے کہ ان کی جماعت کے رہنماؤں کی راتیں نیند کے بغیر گزرہی ہیں۔ دوسری جانب سینیئر شریف بھی اس سے آگاہ ہیں اور کم ازکم دو انٹرویو ( جن میں سے ایک ڈان کو دیا گیا) میں انہوں عوام سے اپیل کی ہے کہ مینڈیٹ کو تقسیم نہ کیا جائے۔
پی ٹی آئی کا چیلنج
پنجاب میں کئی اہم اور بڑے امیدوار ایسے بھی ہیں جن کی مقبولیت اور ماضی کی پرفارمنس دیکھتے ہوئے ان کی فتح کی پیش گوئی کی جاسکتی ہے ۔ ان میں پی ایم ایل کیو نے جہانگیر ترین لودھراں سے، ٹیکسلا سے غلام سرور خان شامل ہیں۔ پی ٹی آئی کے اہم رہنما شاہ محمود قریشی، جاوید ہاشمی اور شیر افگن نیازی کے بیٹے بھی اہم رہنما ہیں جو میانوالی سے الیکشن لڑرہے ہیں۔
ان میں سے ایک اہم اور نامعلوم چیلنج، ' نئے ووٹر' کا بھی ہے جو پانسا پلٹ سکتے ہیں، اور ان یہ مقامات راولپنڈی میں بھی ہوسکتے ہیں اور لاہور میں ۔ اسی لئے نئے ووٹر اور زیادہ ٹرن آؤٹ سے صورتحال یکسر بدل سکتی ہے۔
عوامی جوش و جذبہ اور خصوصاً عمران خان کے حامی نوجوانوں کی جانب سے چلائی جانے والی آگہی مہم کے تنیجے میں ووٹ ڈالنے کی اہمیت اور ضرورت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس سے امید پیدا ہوئی ہے کہ اس الیکشن میں ووٹ ڈالنے کی شرح قدرے بلند رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ووٹنگ کی 50 سے 60 فیصد شرح حیران کن نتائج مرتب کرسکتی ہے۔
واضح رہے کہ نادرا ور ای سی پی کی جانب پیش کی جانے والی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں ووٹ ڈالنے کی شرح 45.3 رہی جو ہندوستان سے کم اور مصر سے کچھ ذیادہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان ان چار ممالک میں شامل ہے جہاں ووٹنگ کی شرح کم ترین ہے۔
پی پی پی کے امکانات
پی پی پی کے امکانات کے متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ سیاسی تجزیہ کار عامر متین کا کہنا ہے کہ پی پی پی پنجاب سے بیس سے تیس سیٹیں لے پائے گی جن میں بالائی پنجاب سے پانچ تا آٹھ نشستیں اور دس سے اٹھارہ سیٹیں جنوبی پنجاب کی شامل ہیں۔ ' تاہم حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
معلق پارلیمنٹ
آج کے انتخابات کی سب سے قابل اعتبار پیشگوئی یہی ہوسکتی ہے کہ اس سے ایک معلق پارلیمنٹ وجود میں آئے گی ۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ 1988 سے ابتک تمام حکومتیں اتحاد اور اتفاق سے ہی ممکن ہوئی ہیں۔ تاہم اتحادی دھڑوں کے بارے میں حتمی طور پر اتوار کے بعد ہی کچھ کہا جاسکے گا
تاہم حالیہ دنوں میں خان اور شریف دونوں ہی اتحادی حکومت اور شراکت داری کی اشارہ دے چکے ہیں۔ ایم کیو ایم کراچی اور حیدرآباد سے اپنی سیٹوں کو برقرار رکھے گی اور روایتی اتحادی ثابت ہوگی۔ ادھر صوبہ خیبرپختونخواہ میں جے یو آئی ایف کی بہتر کارکردگی متوقع ہے۔
بلوچستان
بلوچستان میں قوم پرستوں کی واپسی اور انتخابات میں شمولیت سے مجموعی قومی صورتحال پر بہتر اثر ہوگا اور اس طرح بلوچستان کے کچھ زخم بھی مندمل ہوسکیں گے۔
اگرچہ بلوچستان کا پس منظر قومی نمبر گیم میں بہت کم اثر انداز ہوگا تاہم لیکن مجموعی طور پر صوبہ بلوچستان میں بہت سے مثبت آثار نمایاں ہیں۔
خیبرپختونخواہ کے الیکشن کھیل میں چھ اہم جماعتیں ہیں ۔ توقع ہے کہ اے این پی اور پی پی پی اس بار پیچھے رہیں گی جبکہ جے یو آئی ایف اور نون لیگ کی کارکردگی بہتر رہے گی۔