پاکستان کے 80 لاکھ غلام مزدور
حیدرآباد: ایک سیمینار میں شرکا نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ قانون بنائے اور پالیسی وضع کرے تاکہ ملک میں مناسب تنخواہ ، سوشل سیکیورٹی اور صحت کی سہولیات کے بغیر جبری مشقت کرنے والے مزدوروں پر ظلم روکا جاسکے۔
' اس وقت پاکستان میں تیس سے اسی لاکھ تک جبری مزدور موجود ہیں جبکہ دنیا میں ان کی تعداد تین کروڑ سے زائد ہے،' ہفتے کے روز مقامی ہوٹل میں جاری ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ایک شریک ماہر نے کہا۔
اس موقع پر وفاقی وزیرِ مملکت برائے ریلویز عبدالحکیم بلوچ ، سابق وزیرِ اطلاعات سندھ شازیہ مری، بھندر سنگت نامی تنظیم کے صدر شاہین رمضان، بھگت سندھ ، تاج مری، ڈاکٹر حسن نثار، امیر بخش شر، غلام مصطفیٰ بلوچ، غلام فاطمہ، عروسہ کاٹی، بشیرا مسیح اور دیگر نے خطاب کیا۔
جبری مزدوری کو ' جدید دور کی غلامی' قرار دیتے ہوئے۔ شرکا نے کہا کہ ملک میں 800,000 کے قریب ہاری اور کسان جبری مزدوری کا حصہ ہے اور جاگیردار اور وڈیرے انہیں آزادانہ حرکت، تعلیم اور صحت کی سہولیات کے علاوہ مناسب آمدنی جیسے حقوق سے بھی محروم رکھے ہوئے ہیں۔
اینٹوں کے بٹھوں پر کام کرنے والے 200,000 کے قریب خاندان بھی اسی زمرے میں آتے ہیں کیونکہ ان کے بنیادی حقوق سلب کرلئے گئے ہیں۔ شرکا نے کہا کہ اینٹوں کے بھٹوں کو صنعت کا درجہ تو دیدیا گیا ہے لیکن ان کے مزدوروں کو صنعتی آجر کا درجہ نہیں دیا گیا ہے اور وہ مزدور قوانین کے تحت نہیں آتے ۔ یہ مزدور اولڈ ایج بینیفٹس اور سوشل سیکیورٹی کیلئے رجسٹر بھی نہیں ہوسکتے ہیں۔
کانفرنس سے خطاب کرنے والے افراد نے کہا کہ ملک میں جبری مزدوری کا خاتمہ کرنے کیلئے موجودہ قوانین میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد حکومتِ سندھ کو مناسب پالیسی اور قانونی سازی کرنی چاہئے تاکہ غلام مزدوری، بچوں سے مشقت اور جبری مشقت کی دیگر صورتوں کو روکا جاسکے۔
وزیرِ مملکت برائے ریلوے نے کہا کہ جبری مشقت کیخلاف قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔