خشک میوے میں شمار کیا جانے والا اخروٹ ہمیشہ سے طبی لحاظ سے فائدہ مند قرار دیا جاتا ہے۔

اخروٹ میں ایسے پروٹینز، وٹامنز، مرلز اور فیٹس ہوتے ہیں جو جسم میں کولیسٹرول لیول کو کم رکھنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں جس سے دل کے دورے کا خطرہ بھی کم ہوجاتا ہے۔

حالیہ دہائیوں میں اس گری کے حوالے سے ماہرین کی دلچسپی میں اضافہ ہوا ہے اور امریکا تو ہر سال ایک کانفرنس کا انعقاد بھی ہوتا ہے۔

اب تک طبی سائنس اخروٹ کے جو فوائد ثابت کرچکی ہے وہ درج ذیل ہے۔

اینٹی آکسائیڈنٹس سے بھرپور

کسی اور گری کے مقابلے میں اخروٹ کھانے سے جسم میں اینٹی آکسائیڈنٹس سرگرمیاں سب سے زیادہ ہوتی ہے۔

وٹامن ای، میلاٹونین اور نباتاتی مرکبات پولی فینولز اس گری کو اینٹی آکسائیڈنٹس سے بھرپور بناتے ہیں۔

صحت مند بالغ افراد پر ہونے والی ایک تحقیق میں ثابت ہوا کہ اخروٹ سے بھرپور غذا کا استعمال کھانے کے بعد نقصان دہ کولیسٹرول ایل ڈی ایل سے بننے والے تکسیدی تناؤ سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔

یہ بہت مفید ہوتا ہے کیونکہ ایل ڈی ایل کولیسٹرول شریانوں میں جمع ہونے لگتا ہے اور ایتھیروسلی روسس (دل کی ایک بیماری) کا خطرہ بڑھتا ہے۔

اومیگا تھری فیٹی ایسڈز کے حصول کا بہترین ذریعہ

کسی گری کے مقابلے میں اخروٹ میں اومیگا تھری کی مقدار سب سے زیادہ ہوتی ہے، ایک اونس یا 28 گرام اخروٹ کھانے سے ڈھائی گرام اومیگا تھری فیٹی ایسڈز جسم کا حصہ بنتے ہیں۔

اومیگا تھری کے حصول کے نباتاتی ذریعے کو ایلفا لائنولینک ایسڈ (اے ایل اے) کہا جاتا ہے اور مردوں کو روزانہ 1.6 اور خواتین کو 1.1 گرام اے ایل اے جزوبدن بنانے کا مشورہ کیا جاتا ہے۔

دن میں کچھ مقدار میں اخروٹ کھانے سے یہ ضرورت پوری کی جاسکتی ہے۔

ورم میں کمی

ورم متعدد امراض بشمول امراض قلب، ذیابیطس ٹائپ 2، الزائمر امراض اور کینسر کی وجہ بنتا ہے اور اس سے تکسیدی تناؤ بھی بڑھتا ہے۔

اخروٹ میں موجود پولی فینولز اس تکسیدی تناؤ اور ورم سے لڑنے میں مدد کرتے ہیں۔ پولی فینولز کا ایک ذیلی گروپ ellagitannins اس حوالے سے اہم کردار ادا کرتا ہے۔

معدے میں موجود فائدہ مند بیکٹریا ellagitannins کو یورولیتھینز نامی مرکبات میں تبدیل کردیتا ہے جسے ورم سے تحفظ فراہم کرنے سے منسلک کیا جاتا ہے۔

اے ایل اے اومیگا تھری فیٹی ایسڈز، میگنیشم اور امینو ایسڈ بھی ورم میں کمی لانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

نظام ہاضمہ صحت مند بنائے

تحقیقی رپورٹس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اگر معدے میں صحت بہتر بنانے والے بیکٹریا اور دیگر جرثوموں کی تعداد زیادہ ہو تو نظام ہاضمہ اور مجموعی صحت بہتر ہوتی ہے۔

اس کے مقابلے میں نصان دہ بیکٹریا اور جرثوموں کی زیادہ تعداد ورم اور معدے کے امراض کا باعث بنتی ہے، موٹاپے، امراض قلب اور کینسر کا خطرہ بڑھتا ہے۔

لوگوں کا غذائی انتخاب ان جرثوموں کے اجتماع پر اثرانداز ہوتا ہے، اخروٹ کھانے کی عادت صحت مند بیکٹریا کی تعداد بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔

194 صحت مند افراد پر ہونے والی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ روزانہ ڈیڑھ اونس یا 42 گرام اخروٹ 8 ہفتے کھانے سے صحت کے لیے فائدہ مند بیکٹریا کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔

مختلف اقسام کے کینسر سے ممکنہ تحفظ

جانوروں اور انسانوں پر ہونے والی مشاہداتی تحقیقی رپورٹس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اخروٹ کھانے کی عادت کینسر کی مخصوص اقسام بشمول بریسٹ، مثانے اور دیگر کا خطرہ کم کرسکتی ہے۔

جیسا اوپر درج کیا جاچکا ہے کہ اخروٹ پولی فینولز کی قسم ellagitannins سے بھرپور ہوتے ہیں جن کو معدے میں موجود بیکٹریا مخصوص مرکبات urolithins میں بدل دیتے ہیں۔

urolithins ورم کش کش خصوصیات والے مرکبات ہیں جس سے colorectal کینسر سے تحفظ مل سکتا ہے جبکہ دیگر اقسام کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے۔

urolithins کی ہارمون جیسی خصوصیات جسم میں ہارمون ریسیپٹر کو بلاک کرتے ہیں، جس سے بھی ہارمون سے متعلق کینسر بشمول بریسٹ اور مثانے کے کینسر کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ ان نتائج کی تصدیق کی جاسکے۔

جسمانی وزن کنٹرول کرنے میں معاون

اخروٹ میں کیلوریز کی مقدار زیادہ ہوتی ہے مگر تحقیقی رپورٹس میں عندیہ ملا ہے کہ اس گری کو کھانے سے بے وقت کھانے کی عادت کو کنٹرول کرنے میں مدد ملتی ہے۔

ایک تحقیق میں 48 گرام اخروٹ پر مشتمل ایک مشروب کو 5 دن تک روزانہ استعمال کرایا گیا تو رضاکاروں کی کھانے کی خواہش اور بھوک کم ہوگئی۔

تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ اس مشروب کے استعمال سے دماغ کا وہ حصہ متحرک ہوگیا جو جسمانی وزن بڑھانے والی غذاؤں کی خواہش کے خلاف مزاحمت کرتا ہے۔

ویسے تو اس حوالے سے زیادہ بڑی تحقیق کی ضرورت ہے مگر کچھ مقدار میں اس گری کو کھانے میں نقصان نہیں۔

ذیابیطس ٹائپ ٹو کو کنٹرول اور اس کا خطرہ کم کرنے میں مددگار

مشاہداتی تحقیقی رپورٹس سے عندیہ ملا ہ کہ اخروٹ کھانے سے ذیابیطس ٹائپ 2 کا خطرہ کم ہوتا ہے جس کی وجہ جسمانی وزن کو کنٹرول کرنا ہے۔

اضافی جسمانی وزن سے ہائی بلڈ شوگر اور ذیابیطس کا خطرہ بڑھتا ہے۔

مگر بلڈ شوگر کو کنٹرول کرنے کے لیے جسمانی وزن میں کمی سے ہٹ کر بھی یہ گری مددگار ثابت ہوتی ہے۔

ذیابیطس کے 100 مریضوں پر ہونے والی ایک کنٹرول تحقیق میں ان افراد کو 3 ماہ تک روزانہ ایک کھانے کا چمچ کولڈ پریسڈ اخروٹ کا تیل استعمال کرایا گیا، جبکہ ان کی معمول کی ذیابیطس کی ادویات اور متوازن غذا کا استعمال جاری رکھا گیا۔

3 ماہ بعد ان افراد کے خالی پیٹ بلڈ شوگر کی سطح میں 8 فیصد کممی آئی۔

اخروٹ کا تیل استعمال کرنے والے افراد کے ہیموگلوبن اے 1 سی کی سطح میں 8 فیصد کمی آئی۔

بلڈ پریشر کی سطح میں کمی

ہائی بلڈ پریشر امراض قلب اور فالج کا خطرہ بڑھانے والے بڑے عناصر میں سے ایک ہے۔

کچھ تحقیقی رپورٹس سے عندیہ ملا ہے کہ اخروٹ کھانے سے بلڈ پریشر کی سطح میں کمی لانے میں مدد ملتی ہے۔

ایک تحقیق میں امراض قلب کے خطرے سے دوچار ساڑھے 7 ہزار افراد کو شام کیا گیا تھا جن کو پھلوں، سبزیوں، مچھلی اور زیتون کے تیل پر مشتمل غذا کے ساتھ روزانہ مختلف گریوں (28) کا استعمال کرایا گیا جن میں 14 گرام اخروٹ شامل تھے۔

محققین نے دریافت کیا کہ دل کی صحت کے لیے مفید غذا کے ساتھ گریوں کے استعمال سے ہائی بلڈ پریشر کی سطح میں معمولی بہتری آجاتی ہے، مگر یہ معمولی کمی بھی امراض قلب سے موت کا خطرہ کم کرتی ہے۔

صحت مند بڑھاپا

عمر میں اضافے کے ساتھ صحت مند جسمانی افعال کو برقرار رکھنا ضرورت ہوتا ہے اور صحت بخش غذائی عادات سے اس میں مدد مل سکتی ہے۔

50 ہزار معمر خواتین پر 18 سال تک جاری رہنے والی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ صحت بخش غذاؤں سے جسمانی افعال کی تنزلی کا خطرہ 13 فیصد تک کم کیا جاسکتا ہے۔

اخروٹ ان غذاؤں میں شامل ہے جن کو صحت بخش غذا کا حصہ مانا جاتا ہے۔

اخروٹ میں ایسے وٹامنز، منرلز، فائبر، فیٹس اور نباتاتی مرکبات سے جسمانی افعال کو ٹھیک رکھنے میں مدد ملتی ہے۔

دماغ کے لیے بہترین

اخروٹ کو ویسے ہی دماغ کے لیے مفید سمجھا جاتا ہے اور تحقیقی رپورٹس میں یہ ثابت بھی ہوا ہے۔

جانوروں اور ٹیسٹ ٹیوب تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا کہ اخروٹ میں موجود غذائی اجزا دماغی ورم اور تکسیدی تناؤ میں کمی لاتے ہیں۔

معمر افراد پر ہونے والی تحقیقی رپورٹس میں اخروٹ کھانے کی عادت کو بہتر دماغی افعال سے منسلک کیا گیا۔

نتائج تو حوصلہ افزا ہیں مگر اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

مردوں کی تولیدی صحت کے لیے معاون

جنک فوڈ کا زیادہ استعمال مردوں میں اسپرم افعال کو متاثر کرنے سے منسلک کیا جاتا ہے، مگر اکروٹ کھانے سے اسپرم کی صحت کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔

مغربی غذاؤں کے عادی 117 صحت مند جوان مردوں پر ہونے والی ایک تحقیق میں انہیں روزانہ 75 گرام اخروٹ کا استعمال کرایا گیا جس سے اسپرم افعال میں بہتری آئی۔

اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاہم اخروٹ کھانا مردوں کو اس حوالے سے فائدہ پہنچا سکتا ہے۔

خون میں چکنائی کی سطح بہتر کرے

خون میں نقصان دہ ایل ڈی ایل کولیسٹرول اور ٹرائی گلیسرائیڈز کی سطح میں اضافے سے امراض قلب کا خطرہ بڑھتا ہے۔

اخروٹ کھانا عادت بنانے سے کولیسٹرول کی سطح میں کمی آتی ہے۔

194 صحت مند افراد کو 8 ہفتوں تک روزانہ 43 گرام اخروٹ کا استعمال کرایا گیا تو مجموعی کولیسٹرول کی سطح میں 5 فیصد، ایل ڈی ایل کولیسٹرول کی سطح میں 5 فیصد اور ٹرائی گلیسرائیڈز کی سطح میں 5 فیصد کمی آئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں