رینجرز کی مستعدی

03 مارچ 2014
نارتھ کراچی میں سڑک پر جوڑے کا جھگڑا، ریجنرز اہلکار نے شوہر کو ہی گولی ماردی۔رائٹرز فوٹو۔۔۔
نارتھ کراچی میں سڑک پر جوڑے کا جھگڑا، ریجنرز اہلکار نے شوہر کو ہی گولی ماردی۔رائٹرز فوٹو۔۔۔

گذشتہ برسوں کے دوران کراچی میں متعدد ایسے واقعات پیش آچکے ہیں، جن سے پتا چلتا ہے کہ شہر میں امن و امان کے واسطے متعین نیم فوجی دستے درکار تربیت سے ہی خالی ہیں۔ جمعہ کو نارتھ کراچی میں رینجرز اہلکار نے گولی مار شوہر کو ہلاک جبکہ بیوی کو زخمی کردیا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ میاں بیوی سڑک پر جھگڑ رہے تھے کہ اہلکار سمجھا کہ یہ اغوا کی کوشش ہے، جس پر اس نے مداخلت کردی۔ بہرحال اس بات کی ضرور تفتیش کی جانی چاہیے کہ جب متاثرہ فرد کو غیر مہلک طریقے استعمال کرتے ہوئے قابو میں کیا جاسکتا تھا تو پھر اُس پر جاں لیوا انداز میں اتنی زیادہ طاقت کا استعمال کیوں کیا گیا۔

یہاں اس طرح کے دیگر واقعات بھی پیش آچکے، جس میں رینجرز اہلکار ملوث تھے۔

گذشتہ برس ایک اہلکار نے ٹیکسی ڈرائیور کو گولی مار کر ہلاک کردیا تھا جبکہ ایک دوسرے واقعے میں، اشارے کے باوجود رکنے میں ناکام گاڑی پر گولی چلا کر، ایک اور شہری کی جان لے لی گئی تھی۔

تاہم رینجرز کے ہاتھوں، اب تک کا سب سے زیادہ سنگین واقعہ، سن دو ہزار گیارہ میں پیش آنے والا سرفراز شاہ قتل کیس ہے۔ شہر کے ایک پارک میں رینجرز اہلکاروں نے نہتے نوجوان کو اپنی گولی کا نشانہ بنایا تھا۔ اس خونی واقعے کی لرزہ خیز وڈیو، ٹی وی چینلز کے ذریعے منظرِ عام پر آنے کے بعد پورے ملک میں تہلکہ مچ گیا تھا۔

بلاشبہ، کراچی تشدد کی لپیٹ میں آیا ایسا شہر ہے، جہاں رینجرز سمیت قانون نافذ کرنے والے تمام ادارے خطرے کی زد میں ہیں اور ان کے اہلکاروں پر متعدد حملے بھی ہوچکے لیکن اس طرح، ضرورت سے زیادہ مستعدی دکھانا کسی طور قابلِ قبول نہیں۔

یہ نہیں کہہ رہے کہ رینجرزنے لاپرواہی سے گولیاں چلائیں بلکہ اس کے بجائے، بات یہ ہے کہ ان اہلکاروں کو شہری پولیس کی ذمہ داریوں، جیسے گھریلو جھگڑوں کو نمٹانا، ٹریفک کو ہدایات دینا یا پھر چھوٹے چھوٹے چور اُچکّوں کا پیچھا کرنے کے معاملات کی تربیت حاصل نہیں ہے۔ یہ پولیس کے کرنے کے کام ہیں۔

پولیس اہلکاروں کو ہمسائے علاقوں اورزمینی حقائق کا زیادہ بہتر انداز میں علم ہوتا ہے اور تمام تر خامیوں کے باوجود، اس طرح کے معاملات نمٹانے میں، پولیس اب بھی سب سے بہتر پوزیشن میں ہے۔

آیا وہ کیوں گشت کرتے یا چھاپے مارتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ممکنہ زیادتیوں کے واقعات کی روک تھام کے لیے رینجرز کی کارروائیوں میں پولیس کا ساتھ ہونا ضروری ہے۔

اور چاہے یہ پولیس ہو یا رینجرز، قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کے اہلکاروں کو فوراً بندوق کی لبلبی دبا کر گولی چلانے کے بجائے مشتبہ شخص پر قابو پانے کے لیے غیر مہلک طریقے استعمال کرنے کی تربیت دی جانی چاہیے۔

انگریزی میں پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں