ایم کیو ایم کی قیادت پریشان کیوں؟

04 اکتوبر 2014
بار بار تبدیل ہوتے بیانات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ متحدہ کی قیادت پارٹری مستقل کو لے کر پریشانیوں کا شکار ہے۔
بار بار تبدیل ہوتے بیانات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ متحدہ کی قیادت پارٹری مستقل کو لے کر پریشانیوں کا شکار ہے۔

الطاف حسین کی جانب سے پچھلے کچھ ہفتوں میں جاری کیے گئے متضاد بیانات کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔ ایک طرف تو وہ ملٹری کو ٹیک اوور کرنے، اور طویل مدتی ٹیکنوکریٹ حکومت کے قیام کا مطالبہ کرتے ہیں، تو دوسرے دن وہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر ان کی پارٹی کو دیوار سے لگانے کا الزام عائد کرتے ہیں۔ یہ دونوں باتیں ایک جیسی ہیں، یا متضاد ہیں، اور کس طرح ایک ساتھ فٹ ہوتی ہیں، اس کو الطاف حسین پر ہی چھوڑ دیتے ہیں۔

ویسے سیاستدانوں کے لیے بیانات بدلنا کوئی حیرت انگیز بات نہیں۔ لیکن پھر بھی ایم کیو ایم کے قائد کو ہرانا مشکل ہے۔ ان کے حد سے زیادہ طویل ٹیلیفونک خطابوں اور لائیو ٹی وی انٹرویوز میں اداکاریوں کے نمونے ان کے جانباز ترین کارکنوں کے لیے تفریح کا باعث بنتے ہیں یا شرم کا، اس کو کارکنوں پر چھوڑ دیتے ہیں۔

بار بار پارٹی کی کمیٹیوں کو تحلیل کرنا، یا قیادت چھوڑنے کی دھمکیاں دینا، اور پھر کارکنوں کی جذباتی اپیلوں پر قیادت چھوڑے بغیر ہی واپس سنبھال لینا ایک روٹین بن چکا ہے۔ یہ سب کچھ بہت ہی عجیب سا لگتا ہے، لیکن پھر بھی ایم کیو ایم اس ملک کی سب سے زیادہ منظم اور نظم و ضبط والی جماعت ہے۔ تین دہائیوں پہلے پارٹی کے قیام سے لے کر اب تک پارٹی نے اچھے برے ہر طرح کے حالات دیکھے ہیں، لیکن پھر بھی عوام میں اس کی مقبولیت قائم ہے۔

لیکن کیا اب ایم کیو ایم اس ملک کے سب سے بڑے شہر اور مالیاتی مرکز پر اپنی بلامقابلہ سیاسی برتری کھو رہی ہے؟

الطاف حسین کے بڑھتے ہوئے متضاد بیانات اور پالیسیوں میں تبدیلیاں بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کا ثبوت ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اندرون اور بیرونِ ملک سے پڑنے والے پریشر نے پارٹی کی قیادت کو ہلا کررکھ دیا ہے۔ لندن میٹروپولیٹن پولیس کی جانب سے ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس اور منی لانڈرنگ کیس کی تفتیش بلاشبہ پارٹی کے لیے تشویش کا باعث بن چکی ہے۔

لیکن پارٹی کے لیے اس سے بھی زیادہ بڑا مسئلہ سیکیورٹی ایجنسیز ہیں، جن کی حراست میں ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کے دو مرکزی ملزم ہیں۔ اس کے علاوہ ایم کیو ایم کے کارکنوں کے خلاف مبینہ طور پر جرائم میں ملوث ہونے کی وجہ سے کریک ڈاؤن نے پارٹی پر پریشر مزید بڑھایا ہے۔ اس سے پارٹی قیادت کے بیانات کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ایک طرف تو وہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو ٹھنڈا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے، تو دوسری طرف وہ اپنے کارکنوں کی گرفتاریوں اور ماورائے عدالت قتل سے پریشان بھی ہے۔

1984 میں پارٹی کے قیام سے لے کر اب تک پارٹی اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کھٹا میٹھا رشتہ رہا ہے۔ یہ تو معلوم ہے، کہ سندھ میں بڑھتی ہوئی لسانی تفریق کی وجہ سے پارٹی کو کراچی اور سندھ کے دوسرے شہری علاقوں میں ایک مضبوط سیاسی قوت بن کر ابھرنے کا موقع ملا۔ دوسری جانب کئی لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ شہری قوت پر مبنی ایک مہاجر پارٹی کو جنرل ضیاءالحق کی حمایت حاصل تھی، تاکہ سندھ میں پی پی پی کو سیاسی طور پر کمزور کیا جاسکے۔

ایم کیو ایم اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات 1988 میں جمہوریت کی واپسی کے بعد بھی جاری رہے، لیکن ان تعلقات میں شدید تناؤ تب پیدا ہوا، جب 1990 کی دہائی کے شروع میں ملک کی معاشی شہہ رگ پر پارٹی کے بڑھتے ہوئے کنٹرول نے سیکیورٹی ایجنسیوں کو پریشان کرنا شروع کیا۔

نتیجتاً 1992 میں پارٹی کے خلاف ایک تباہ کن فوج آپریشن شروع کیا گیا۔ بعد میں پارٹی کو ایجنسیوں نے تقسیم کردیا، جبکہ الطاف حسین سمیت زیادہ تر لیڈر ملک چھوڑ گئے۔ گروپ بندی کے بعد کی لڑائیوں میں کئی سینیئر لیڈر مارے گئے۔ پارٹی کو اس کریک ڈاؤن سے شدید نقصان پہنچا، لیکن وہ پھر بھی مکمل طور پر ختم ہونے سے بچ گئی۔

اس کے بعد 1995 میں ایک اور پولیس آپریشن کیا گیا، جس نے پارٹی کو دوبارہ کاری ضرب لگائی، اور اس کے جنگجو گروپ کا بڑی حد تک صفایا کردیا۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک اور فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کے دور میں ایم کیو ایم کے جسم میں ایک نئی روح بیدار ہوئی۔ اگلے سات سالوں تک ایم کیو ایم ملٹری کی سربراہی میں چلنے والی انتظامیہ کا اہم حصہ رہی۔ اس پورے دور میں 1995 کے پولیس آپریشن میں شامل تقریباً تمام پولیس افسران کو ایک ایک کر کے قتل کر دیا گیا۔ کچھ لوگوں کے نزدیک یہ پارٹی کے مسلح کارکنوں اور حامیوں کا کام تھا۔

2008 میں سویلین جمہوریت کی واپسی کے بعد ایم کیو ایم ایک بار پھر اتحاد کا حصہ بنی۔ لیکن اب حالات دوبارہ تبدیل ہوتے ہوئے لگ رہے ہیں۔ اقتدار کے نئے سیٹ اپ میں ایم کیو ایم کو دیوار سے لگا دیا گیا ہے، جبکہ ایک اور کریک ڈاؤن کا سامنا کرتی پارٹی کی قیادت میں خوف کو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔

آرمی چیف کے سامنے رکھے گئے الطاف حسین کے 14 سوالات گھیرے میں آجانے کے خوف کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس میں حیرت کی بات نہیں کہ انہوں نے 1992 اور 1995 کے آپریشنز کا مسئلہ دوبارہ اٹھایا ہے، کیونکہ یہ مسئلہ اب بھی پارٹی کے لیے ایک ڈراؤنے خواب کی مانند ہے۔ سیکیورٹی ایجنسیوں پر حد سے تجاوز کرنے کے الزامات میں شاید صداقت نہ ہو، لیکن ماضی میں آپریشنوں کے تلخ تجربے رکھنے والی ایم کیو ایم کی پریشانی بلاوجہ نہیں ہے۔

ایک منتخب شہری حکومت کی عدم موجودگی میں پارٹی کا شہر پر سیاسی کنٹرول کمزور پڑتا نظر آرہا ہے۔ اس لیے کراچی کو ایک الگ انتظامی یونٹ کا درجہ دینے کا پارٹی کا مطالبہ قابلِ فہم ہے، لیکن موجودہ سیاسی حالات میں ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ اس وقت مقامی حکومتوں کی بحالی کے آثار نظر نہیں آتے، لیکن اگر بلدیاتی انتخابات ہوتے بھی ہیں، تب بھی یہ یقینی نہیں کہ ایم کیو ایم کراچی کی شہری حکومت پر اپنا مکمل کنٹرول حاصل کرپائے گی یا نہیں۔

اس کے علاوہ بڑی تعداد میں کراچی کی طرف لوگوں کی نقل مکانی سے اس کا لسانی سیٹ اپ گذشتہ دہائی میں بہت حد تک تبدیل ہوگیا ہے۔ اور سنجیدہ کوششوں کے باوجود پارٹی اپنی "مہاجر" شناخت سے چھٹکارہ حاصل نہیں کرسکی ہے، جس کی وجہ سے وہ دوسرے لسانی گروپوں کا اعتماد جیتنے میں ناکام رہی ہے۔

پارٹی نے مہاجروں میں اپنی مضبوط حمایت قائم رکھی ہے، لیکن اب یہ حمایت بھی ایسی نہیں رہی جس پر سوال نہ اٹھایا جاسکے۔ پچھلے الیکشن میں پہلی بار ایسا ہوا، کہ کسی جماعت (پاکستان تحریک انصاف) نے ایم کیو ایم کو اس کے گڑھ میں ٹف ٹائم دیا۔ پاکستان تحریک انصاف ایم کیو ایم کے مقابلے میں دوسرے لسانی گروپوں کی حمایت حاصل کرنے کی بہتر پوزیشن میں ہے۔ اور ان تمام تبدیلیوں کی وجہ سے کراچی کا سیاسی منظرنامہ بھی تبدیل ہوچکا ہے۔ کراچی کی مستقبل کی سیاست کا چہرہ اب ان تبدیل شدہ حقائق سے جنم لے گا۔

اپنے تمام تر تضادات کے باوجود ایک مڈل کلاس اور سیکولر جماعت ایم کیو ایم اب اپنی تاریخ کے سب سے بڑے چیلنج سے دوچار ہے۔ ہاں اس نے موروثی سیاست کے نظام کو کافی حد تک توڑا ہے، لیکن یہ شخصیت پرست جماعت ہے۔ الطاف حسین کے بغیر پارٹی کے مستقبل کا تصور کرنا مشکل ہے، لیکن قیادت میں ان کی لمبے عرصے سے موجودگی ہی اس کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔


زاہد حسین ایک لکھاری اور جرنلسٹ ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر hidhussain@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

[email protected]

یہ مضمون ڈان اخبار میں 01 اکتوبر 2014 کو شائع ہوا۔

تبصرے (3) بند ہیں

محمد علی Oct 04, 2014 06:21pm
زاہد حسین صاحب اپنے کالم ایم کیوایم کی قیادت پریشان کیوں ؟ میں صحافی سے زیادہ مورخ کے روپ میں نظر آئے ،، زاہد حسین نے ایم کیو ایم کی سیاسی تاریخ کو بخوبی بیان کیا ،،،،، اور جس طریقے سے انہوں اپنے ہی کالم میں ایم کیو ایم کے مشرف دور کو سنہرے دور سے مشابہت دیتے ہوئے روائتی جنگجوانہ درپردہ شناخت بھی واضع کی کہ ماضی میں انکے خلاف آپریشن میں حصہ لینے والے تمام پولیس افسران مار دئے گئے،،، اس پس منظر میں اسی شہر کے صحافی کے لئے اسی سیاسی جماعت کے لئے بے باک اندازقارئین کی دلچسپی اور سنسنی سمیٹنے کے لئے کافی ہے ۔
zulfiqar ali zulfi Oct 05, 2014 01:26am
بلاشبہ کراچی کی آبادی میں تبدیلی نے ایم کیو ایم کو اسی طرح خوفزدہ کردیا ہے جس طرح پچاس کی دہائی میں مقامی سندھی اور بلوچ ہوئے تھے جب کراچی ان کے ہاتھ سے ہمیشہ کیلئے چھن گیا .آج پختون خطرہ بن چکا ہے جس کی سیاسی وابستگی تحریک انصاف و اے این پی سے ہے..البتہ مجھے نہیں لگتا ایجنسیوں سے ایم کیو ایم کو کوئی بڑا چیلنج درپیش ہو
فرحین علی Oct 05, 2014 11:56pm
کسی بھی پارٹی کی ذیلی قیادت کی تبدیلی تجزیہ نگاروں کی لیے اتنی دلچسپی کا باعث نظر نہیں آتی جتنا ایم کیوایم کی، شاید اسکی وجہ یہ ہے کہ اس جماعت کی ذیلی قیادت اور کارکنان ہی اس کی اصل روح سمجھے جاتے ہیں۔ اب یہ ایک مثبت پہلو ہے یا منفی اس پرتجزیہ ابھی باقی ہے، تاہم دو باتوں کی طرف توجہ میں ضرور دلانا چاہوں گی اول یہ کہ سندھ میں لسانی تفریق ایم کیو ایم کی قیام سے بہت پہلے کی تھی جو ہنوز برقرار ہے، ایم کیوایم کی جانب سے اس تفریق کو پاٹنے کی کوششیں تو متعدد بار نظر آئیں تاہم شہری سندھ اپنا انتظام چلانے کے لیے آج بھی دیہی اکثریت کا پابند نظر آتا ہے۔ ایسے میں ایم کیوایم کا نئے انتظامی یونٹ کا مطالبہ اگر اسی سیاق و سباق میں دیکھا جائے تو مناسب ہوگا۔ دوم یہ کہ ایم کیو ایم کے جسم میں روح کا بیدار ہونا پرویز مشرف حکومت سے جوڑنا قطعی غیر حقیقی ہے، شاید ہم درمیان کے دور میں لیاقت جتوئی صاحب کی حکومت اور 1997 کے انتخابی نتائج کو یکسر فراموش کر بیٹھے ہیں۔ ایم کیوایم نے جتنے تلخ حالات گزارے اور ان سے گزر کر بھی اپنی عوامی مقبولیت اور طاقت قائم رکھی وہ اس کی قیادت کی مضبوطی کا ہی مظہر ہے اور اس بات سے بھی انکار نہیں کہ قیادت کی اس مضبوطی کا بنیادی نکتہ الطاف حسین صاحب کی ہی ذات رہی ہے۔ اب جو بھی کہیے مگر ماضی میں بھی سرکاری سرپریستی میں ہونے والی گروپ بندیوں کی کوششیں شہری سندھ کے باسیوں نے اپنی آنکھوں سے ناکام ہوتے اور اپنے ووٹ سے ناکام کرکے دکھائی ہیں اور شاید آئندہ بھی دکھاتے رہیں، لیکن سوال یہی ہے کہ آخر کب تک؟ کیا انہیں ایک اچھی قیادت میسر ہونے کے باوجود بھی اپنے مسائل حل کرنے کا کبھ