اسلام آباد: الیکشن کمیشن کے آفیشل نے انکشاف کیا ہے کہ ووٹ کے روایتی طریقوں کی طرح الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے بھی باآسانی فراڈ کیا جاسکتا ہے۔

جمعرات کو الیکشن کمیشن کے آفیشل نے پارلیمانی کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات کے ارکان کو یہ بتا کر حیران کردیا کہ انتخابات کے دوران روایتی طریقے ہونے والی دھاندلی اور بوگس ووٹنگ کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے بھی نہیں روکا جا سکتا اور اس مشین کے ذریعے بھی فراڈ کیا جا سکتا ہے۔

الیکشن کمیشن کے ڈائریکٹر جنرل برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی خضر عزیز نے پارلیمانی باڈی کو بتایا کہ مشین میں استعمال ہونے والے سافٹ ویئر میں باآسانی چھیڑ چھاڑ اور انتخابی نتائج میں تبدیلی کی جا سکتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پولنگ اسٹیشن پر نصب مشینوں کو بلوٹوتھ سگنل سمیت کسی بھی وائرلیس ذریعے سے باآسانی ہیک کیا جا سکتا ہے اور اس میں باآسانی تبدیلی کی جا سکتی ہے۔

خضر عزیز نے کہا کہ یہ غلط تصور ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ اور بائیو میٹکرک سسٹم کے ذریعے سو فیصد صاف و شفاف انتخابات ممکن ہیں۔

اس موقع پر انہوں نے چھ یورپی ملکوں کی مثالیں بھی پیش یں جو مشین کے نتائج کی شفافیت پر اٹھنے والے سوالات اور نقائص کے باعث دوبارہ روایتی انتخابی طریقہ کار استعمال کرنے لگے۔

انہوں نے بتایا کہ الیکٹرانک مشین کو جرمنی کی سپریم کورٹ نے بھی غیر آئینی قرار دے دیا تھا۔

الیکشن کمیشن کے افسر نے بتایا کہ پڑوسی ملک ہندوستان کی جانب سے 2004، 2009 اور 2014 کے گزشتہ تینوں عام انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ کے ذریعے کرائے جانے کے باوجود اس کی شفافیت کے عمل پر سوالات اٹھائے گئے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ ہندوستانی الیکشن حکام سے رابطے کے بعد انکشاف ہوا کہ اگر مشین کے ذریعے نتائج میں تبدیلی کردی جائے تو دھاندلی کو ثابت کرنا بھی ناممکن ہے۔

خضر عزیز نے کمیٹی کو بتایا کہ اگر مشین میں کسی قسم کی تبدیلی کی جائے تو 14 لاکھ مشینوں کی جانچ پڑتال ناممکن ہے۔

واضح رہے کہ اس وقت امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا، فرانس، آسٹریا، ہندوستان اور استونیا میں انتخابات کے دوران الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کا استعمال کیا جا رہا ہے۔

کمیٹی کو مشین کے فوائد کی تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مشین کے ذریعے ناصرف انتہائی تیزی کے ساتھ ووٹنگ ہو سکتی ہے بلکہ ساتھ ساتھ مشترد شدہ ووٹوں کا مسئلہ بھی ہمیشہ کے لیے حل ہو جائے گا۔

یاد رہے کہ گزشتہ انتخابات میں مسترد شدہ ووٹوں کا مسئلہ بڑے پیمانے پر سامنے آیا تھا جہاں درجنوں حلقوں میں مسترد شدہد ووٹوں کی تعداد جیتنے اور ہارنے والے امیدوار کے درمیان فرق سے بھی زیادہ تھی۔

بائیو میٹرک کے حوالے سے پینل کو بتایا کہ نادرا کے مطابق ابھی تک صوبہ خیبرپختونخوا میں کُل ووٹرز میں سے 10 سے 12 فیصد افارد کا بھی بائیو میٹرک ڈیٹا دستیاب نہیں اور نادرا کے نمائندے قبوس عزیز نے اس کی تصدیق کی ہے۔

اس موقع پر بتایا گیا کہ بائیو میٹرک سسٹم میں بھی 10 سے 15 فیصد غلطی کا امکان موجود ہے اور ہاتھ کے کام یا جِلد کی کسی بیماری میں مبتلا شخص کے انگوٹھے کے بائیو میٹرک نہیں ملتے جبکہ بوڑھے افراد افارد کے انگوٹھے کے بائیو میٹرک کی تصدیق بھی بہت مشکل ہے۔

کمیٹی نے نادرا کو ہدایت کی کہ وہ خیبر پختونخوا میں جلد از جلد 10 لاکھ سے زائد لوگوں کے بائیو میٹرک حاصل کرنے کا عمل کرے اور ساتھ ساتھ الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور بائیو میترک کی تدیق کے عمل پر آنے والی لاگت سے بھی آگاہ کرے۔

کمیٹی نے پیر کو ہونے والے اجلاس میں دونوں طریقوں کے استعمال کا عملی مظاہرہ کرنے کی بھی ہدایت کی۔

تبصرے (0) بند ہیں