30 نومبر کا جلسہ، حکومت اور پی ٹی آئی کے اقدامات میں تیزی

اپ ڈیٹ 24 نومبر 2014
پارلیمنٹ ہاؤس کے قریب موجود کرین— آن لائن فوٹو
پارلیمنٹ ہاؤس کے قریب موجود کرین— آن لائن فوٹو
پی ٹی آئی کے تیس نومبر کے جلسے سے پہلے ڈی چوک پر کنٹینرز رکھ دیئے گئے ہیں— آن لائن فوٹو
پی ٹی آئی کے تیس نومبر کے جلسے سے پہلے ڈی چوک پر کنٹینرز رکھ دیئے گئے ہیں— آن لائن فوٹو
پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے رکھے گئے کنٹینرز— آن لائن فوٹو
پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے رکھے گئے کنٹینرز— آن لائن فوٹو
پوسٹ گریجویٹ ایسوسی ایشن گلگت بلتستان کے ورکرز پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے احتجاج کررہے ہیں— آن لائن فوٹو
پوسٹ گریجویٹ ایسوسی ایشن گلگت بلتستان کے ورکرز پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے احتجاج کررہے ہیں— آن لائن فوٹو
ڈی چوک پر تیس نومبر کے جلسے سے قبل لگائے گئے کنٹینرز— آن لائن فوٹو
ڈی چوک پر تیس نومبر کے جلسے سے قبل لگائے گئے کنٹینرز— آن لائن فوٹو
دارالحکومت کی انتظامیہ پی ٹی آئی کے تیس نومبر کے جلسے کے پیش نظر کنٹینرز لگارہی ہے— آئی این پی فوٹو
دارالحکومت کی انتظامیہ پی ٹی آئی کے تیس نومبر کے جلسے کے پیش نظر کنٹینرز لگارہی ہے— آئی این پی فوٹو
گاڑیاں دارالحکومت میں پولیس چیک پوسٹ سے گزر رہی ہیں— آن لائن فوٹو
گاڑیاں دارالحکومت میں پولیس چیک پوسٹ سے گزر رہی ہیں— آن لائن فوٹو

راولپنڈی/اسلام آباد : حکومت اور پاکستان تحریک انصاف اس وقت دارالحکومت اسلام آباد میں 30 نومبر کو مجوزہ جلسے کے حوالے سے لفظی جنگ میں الجھے ہوئے ہیں، دونوں فریقین اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور دونوں جماعتوں کی قیادت ایک دوسرے کے خلاف بیانات جاری کرنے میں مصروف ہے۔

عمران خان احتجاج کے لیے عوامی حمایت کے حصول کے لیے کافی جدوجہد کررہے ہیں اور اسے یادگار بنانے کا وعدہ کررہے ہیں۔

حکومت عمومی اور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان خصوصاً اس بات پر اصرار کررہے ہیں کہ پی ٹی آئی چیئرمین اور ان کی جماعت کو قوانین پر عمل کرنا ہوگا یا پھر ریاستی طاقت کا سامنا کرنا ہوگا۔

مگر عوامی سطح پر اعتماد کے اظہار کے پس پردہ دونوں اطراف میں بے یقینی کی کیفیت نظر آتی ہے، حکومتی حلقے اس رائے پر تقسیم کا شکار ہیں کہ پی ٹی آئی کو جگہ دی جائے یا نہ دی جائے، اس کا ثبوت یہ ہے کہ حکومت بہت تیزی سے اپنے موقف بار بار بدل رہی ہے، ایک طرف تو وہ کہتی ہے کہ پی ٹی آئی کو پرامن احتجاج کی اجازت دی جائے گی مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ اصرار بھی کرتی ہے انہیں کامیابی کی اجازت نہیں دے گی۔

پی ٹی آئی کے ساتھ ساتھ اس جلسے کے اہم اسٹیک ہولڈرز میں وفاقی اور پنجاب حکومتیں، دارالحکومت کی انتظامیہ، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ وہ شہری شامل ہیں جو تیس نومبر کو اسلام آباد کا رخ کرنا چاہتے ہیں، مگر ایسا نظر آتا ہے ان میں سے کسی اسٹیک ہولڈر کے پاس اس جلسے کے حوالے سے کوئی ٹھوس حکمت عملی موجود نہیں۔


ضلعی پولیس اور انتظامیہ


اسلام آباد میں شاہراہِ دستور پر 30 اگست کے تشدد کے بعد اسلام آباد لوگوں کے بڑے ہجوم سے کافی محتاط ہے اور اسے احساس ہے کہ اگر اسے اوپر سے واضح احکامات موصول نہ ہوئے تو وہ اس طرح کی ہنگامہ خیز صورتحال سے نمٹنے کے لیے ناکافی صلاحیت رکھتی ہے۔

ایک پولیس عہدیدار نے ڈان سے بات کرتے ہوئے ریاست کی جانب سے پی ٹی آئی کے حامیوں سے نمٹنے کے حوالے سے واضح ہدایات نہ دینے کا حوالے دیتے ہوئے بتایا "حکومت نے لگتا ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا"۔

جب مظاہرین نے آخری بار شاہراہ دستور پر دھاوا بولا تھا تو پولیس ان کی پیشرفت کے سامنے بے بس نظر آئی تھی کیونکہ انہیں جوابی کارروائی کے لیے واضح احکامات نہیں ملے تھے اور ابھی بھی یہ واضح نہیں کہ اگر اس روز بھی تشدد پھوٹ پڑا تو کون مشتعل ہجوم کے خلاف کارروائی کے احکامات دے گا۔

پولیس افسران کے خلاف ایک مقدمہ تاحال عدالت میں زیر سماعت ہے جس کے حوالے سے متعدد پولیس افسران کا کہنا تھا کہ تیس اگست کو مظاہرین کے خلاف پولیس کی کارروائی کے احکامات کے حوالے سے کوئی آفیشل ریکارڈ موجود نہیں۔

ان حالات کو دیکھتے ہوئے یہ حیرت کی بات نہیں اسلام آباد پولیس زیادہ محتاط ہے، پی ٹی آئی اور ضلعی انتظامیہ کے درمیان بات چیت جاری ہے، پی ٹی آئی ڈی چوک پر جلسے کے لیے اصرار کر رہی ہے جہاں عمران خان کا کنٹینر موجود ہے، جبکہ ڈپٹی کمشنر مجاہد شیردل کی زیرقیادت انتظامیہ متبادل جگہ کی پیشکش کی کوشش کررہی ہے۔

تحریک انصاف کی جانب سے پہلے ہی زیرو پوائنٹ، ایف نائن پارک، کشمیر ہائی وے اور آبپارہ میں جلسے کے انعقاد کی پیشکشوں کو مسترد کیا جاچکا ہے۔

پی ٹی آئی کے حامیوں کی آمد کے پیش نظر ڈی چوک کے ارگرد کنٹینرز کو پہلے ہی لگایا جاچکا ہے اور ایسی رپورٹس بھی آرہی ہیں کہ حکومت کی جانب سے ریڈزون میں انٹری کو ایک آرڈنینس کے ذریعے غیرقانونی قرار دیا جاسکتا ہے، تاہم ایوان صدر اور وزیراعظم کے ترجمان کی جانب سے اس کی تردید کی گئی ہے۔

ایک اعلیٰ انتظامی عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ حکومت نے مظاہرین کے حوالے سے اب تک واضح ہدایات جاری نہیں کی ہیں "ہم جگہ کے تعین کے لیے بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس سے ممکنہ طور پر فیصلہ ہوگا کہ حکومت جلسے کی اجازت دیتی ہے یا اسے روکنے کی کوشش کرتی ہے"۔

ان کا مزید کہنا تھا "ہم نے پولیس کی کنٹینرز کی درخواست کو پورا کر دیا ہے اور پیراملٹری اہلکاروں سمیت اضافی نفری کو بھجوایا جارہا ہے"۔

تاہم اس نے فوری طور پر یہ اضافہ بھی کیا کہ ان سب انتظامات کا مقصد حالات کو معمول پر رکھنا ہے اور اضافی نفری سے کس طرح کام لینا ہے یہ فیصلہ حکومت کے اوپر ہے۔

ایک پولیس افسر نے اس حوالے سے بتایا "ہم صورتحال سے نمٹنے کی تیاری کررہے ہیں اور اپنے اہلکاروں کے لیے تربیتی کورسز کو شروع کیا ہے، تاہم واضح ہدایات نہ ہونے کے باعث ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، ہم پالیسی ساز نہیں، پولیس اور انتظامیہ کا کام صرف احکامات پر عمل کرنا ہوتا ہے"۔

پولیس عہدیداران کے لیے اپنے اقدامات کا دفاع کرنا بھی کافی مشکل ثابت ہورہا ہے، بڑی تعداد میں عہدیداران نے غیرمسلح مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال سے انکار کردیا تھا جس پر وفاقی پولیس کی قیادت متعدد ہاتھوں سے تبدیل ہوتے ہوئے آخر ایس ایس پی عصمت اللہ جونیجو کے ہاتھ میں آگئی، جس کی وجہ مظاہرین سے نمٹنے کے حوالے سے حکومتی عہدیداران اور اعلیٰ افسران کے درمیان اختلافات تھے۔


پی ٹی آئی کے منصوبے


جہاں تک پی ٹی آئی کی بات ہے تو وہ اس اہم ایونٹ کے لیے پرعزم نظر آتی ہے، پارٹی کی کور کمیٹی کے رکن ڈاکٹر عارف علوی نے ڈان کو بتایا کہ اگر حکومت کی جانب سے ان کے حامیوں کو ڈی چوک تک پہنچنے سے روکنے کی کوشش کی گئی تو پھر وہ تصادم اور ردعمل کی خود ذمہ دار ہوگی۔

پارٹی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ ہر طرح کے حالات کے لیے تیار ہیں، پارٹی کی راولپنڈی شاخ کے اندرونی اختلافات نے بھی پی ٹی آئی کو اپنی حکمت عملی پر دوبارہ غور کرنے پر مجبور کردیا ہے اور منتظمین کا کہنا ہے کہ اب ان کی توجہ پنجاب کے قریبی اضلاع کی قیادت کی بجائے خیبرپختونخوا سے زیادہ حامیوں کو لانے پر مرکوز ہے۔

عارف علوی کا کہنا ہے "نواز لیگ وفاق اور پنجاب میں حکومت کررہی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں وہ ہمارے تیس نومبر کے جلسے کو ناکام بنانے کے لیے ہر حربے کا استعمال کررہی ہے"۔

انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی اپنے راستے میں آنے والے ہر قسم کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔

پارٹی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ حامیوں کو کہا جاسکتا ہے کہ وہ بڑے گروپس کی شکل میں سفر کریں تاکہ وہ دارالحکومت کی جانب جانے والے راستوں کو بلاک کرنے کی کسی بھی کوشش کو ناکام بناسکیں۔

مگر مقامی پارٹی رہنماء پہلے ہی ہراساں کیے جانے کی شکایت کررہے ہیں اور پی ٹی آئی کے رکن پنجاب اسمبلی عارف عباسی نے ڈان کو بتایا "سو سے زائد پارٹی ورکرز نے شکایت کی ہے کہ پولیس نے ان کے علاقوں میں جاکر خاص طور پر ان کے رشتے داروں اور کاروبار وغیرہ کی معلومات اکھٹی کی ہیں، تاہم ابھی تک کسی کو حراست میں نہیں لیا گیا ہے"۔

راولپنڈی میں پی ٹی آئی کے قائم مقام صدر اعجاز خان جازی نے بتایا کہ اگرچہ پارٹی نے رائے عامہ کو بیدار کرنے کی مہم شروع کردی ہے تاہم مقامی انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے لوگوں پر جلسے میں شرکت نہ کرنے کے لیے گرفتار کرنے کی دھمکیاں دے کر دباﺅ ڈالا جارہا ہے۔


پنجاب حکومت


صوبائی حکومت نے تیس نومبر کے جلسے کے حوالے سے اپنے منصوبوں پر سختی سے ہونٹ بند کر رکھے ہیں مگر ایک اعلیٰ عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ حکومت نے پی ٹی آئی ورکرز اور حامیوں کو پنجاب سے اسلام آباد میں داخل ہونے کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا "چودہ اگست کو ہمارے منصوبے عوام کے سامنے پہلے ہی آگئے تھے مگر اس بار ہم نے انہیں خفیہ رکھا ہوا ہے اور ہم انہیں عملی شکل دینے کے لیے ایونٹ کے دن تک انتظار کریں گے"۔

عہدیدار نے بتایا کہ اسپیشل برانچ نے پولیس کے ساتھ مل کر ضلع راولپنڈی کے چار سو کے لگ بھگ پی ٹی آئی رہنماﺅں اور ورکرز کی فہرست مرتب کرلی ہے جنھیں جلسے سے قبل حراست میں لیا جاسکتا ہے، اگرچہ ضلع میں پی ٹی آئی عہدیداران کی تعداد پانچ ہزار سے زائد ہے مگر پولیس کی توجہ زیادہ متحرک رہنماﺅں پر مرکوز ہے۔

اعلیٰ عہدیدار کے مطابق اس فہرست کو چار کیٹیگریز میں تقسیم کیا گیا ہے، پہلے میں پی ٹی آئی کو شامل کیا ہے، دوسرے میں ضلعی سطح کے عہدیداران، تیسرے میں تحصیل کی سطح کے عہدیداران اور چوتھی کیٹیگری سرگرم کارکنوں پر مشتمل ہے۔

ان کا کہنا تھا "پنجاب حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ پہلی کیٹیگری میں شامل افراد کو گرفتار نہیں کرے گی مگر باقی سب کے خلاف کریک ڈاﺅن ہوسکتا ہے"۔

اس بات کے بھی واضح اشارے ملے ہیں کہ جلسے کے پیش نظر اسلام آباد کو سیل بھی کیا جاسکتا ہے، راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی (آر ڈی اے) نے میٹرو بس پراجیکٹ میں مصروف کنٹریکٹرز کو ہدایت کی ہے کہ وہ سڑکوں کی بندش کے پیش نظر پہلے ہی پانچ روز کے لیے تعمیراتی سامان جمع کرلیں تاکہ 26 نومبر سے تیس نومبر تک کسی مشکل کا سامنا نہ ہو۔

راولپنڈی کے کمشنر زاہد سعید جو میٹرو بس منصوبے کے ڈائریکٹر بھی ہیں، نے بتایا "ہم نے اپنے کنٹریکٹرز کو کہا ہے کہ وہ چار سے پانچ روز تک کا سامان جمع کرلیں تاکہ کسی بھی صورتحال میں مشکل کا سامنا نہ ہو"۔

تاہم انہوں نے حکومتی منصوبوں پر بات نہیں کی اور بس یہ کہا کہ صوبائی حکومت اگلے چند روز میں اس حوالے سے اپنی حکمت عملی کا اعلان کرے گی "حکومت پی ٹی آئی کی جانب سے واضح یقین دہانی چاہتی ہے کہ وہ پرامن رہے گی"۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں