تنزانیہ سے پاکستان تک، غربت سے جُڑے مسائل تقریباً ایک جیسے ہیں۔ افریقہ ہو یا ایشیا، یہاں کے پسماندہ ملکوں میں حاملہ خواتین کی موت کا تناسب بہت زیادہ اور گندے پانی سے پیدا ہونے والے امراض کی شرح بہت بلند ہے۔ دوسری جانب پاکستان ایسے بچوں کی اموات میں تیسرے نمبر پر ہے جو اپنی زندگی کی پانچویں بہار دیکھنے سے پہلے ہی اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ پاکستان کی طرح تیسری دنیا میں کرپشن، بد انتظامی اور ناکافی وسائل کی بنا پران مسائل کا حل ایک بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے۔

اس ضمن میں اُمید افزا خبر یہ ہے کہ دنیا بھر اور خصوصاً ترقی یافتہ ممالک میں ایسی کامیاب اور کم خرچ ٹیکنولاجیز پر کام ہورہا ہے جو مؤثر انداز میں ان مشکلات کو کم کرسکتی ہیں۔ دوسری جانب کراؤڈ فنڈنگ ویب سائٹس نے ایسی ایجادات کو ایک اچھوتا پلیٹ فارم دیا ہے جہاں کوئی بھی اپنی ایجاد یا اختراع کا آئیڈیا پیش کرکے مطلوبہ فنڈنگ کی دوڑ میں شامل ہوسکتا ہے۔

ذیل میں ان پانچ کامیاب ٹیکنولاجیز کا تعارف پیش کیا جارہا ہے جو بہت سادہ اور کم خرچ ہیں۔ ان ڈیوائسز کو حاصل کرنا آسان اور استعمال آسان تر ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک غیر سرکاری تنظیم بھی انہیں متعارف کر کے واضح نتائج حاصل کرسکتی ہے۔

گرم پانی کا انکیوبیٹر

دنیا میں ہرسال دس لاکھ بچے پیدا ہونے کے بعد اسی دن فوت ہوجاتے ہیں اور 98 فیصد واقعات ترقی پذیر ملکوں میں ہوتے ہیں۔ پاکستان کے غریب علاقوں میں اول تو مہنگے انکیوبیٹر دستیاب ہی نہیں، اگر ہوتے ہیں تو انہیں چلانے کا عملہ غائب اور لوڈشیڈنگ کا مسئلہ اپنی جگہ ہوتا ہے۔

اس انکیوبیٹر کی قیمت صرف 2500 روپے ہے
اس انکیوبیٹر کی قیمت صرف 2500 روپے ہے

ایمبریس نامی غریبوں کا یہ انکیوبیٹر صرف پچیس ڈالر میں دستیاب ہے۔ اس میں گرم پانی ڈالا جاتا ہے اور اس کا خاص مٹیریل چھ گھنٹے تک پورے انکیوبیٹرکو گرم رکھتا ہے۔ اس میں لگا ایک سینسر درجہ حرارت نوٹ کرتا رہتا ہے اور ٹمپریچر کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس طرح ایک نوزائیدہ بچے کو بہت اچھے طریقے سے حرارت پہنچائی جاسکتی ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ غریب ممالک میں قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کو فوری طور پر مستقل درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہائپو تھرمیا کے شکار ان بچوں کو ماں کی آغوش سے بھی افاقہ ہوتا ہے لیکن ننھی جان کے ہر حصے کو گرم رکھنے کا واحد علاج انکیوبیٹر ہی ہے۔

ایمبریس اب تک دنیا بھر میں ہزاروں بچوں کی جانیں بچا چکا ہے۔

سستی آکسیجن مشین

اپنی پیدائش کے بعد اڑتالیس گھنٹوں کے اندر ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کرنے والے بچوں میں ہلاکت کے بیس سے تیس فیصد واقعات کی وجہ نمونیا اور سانس کے امراض ہوتے ہیں۔ وقت سے قبل پیدا ہونے والے بچوں کے پھیپھڑے درست انداز میں کام نہیں کرتے اور اسی لیے وہ سانس کے امراض میں گرفتار ہو کر فوت ہوجاتے ہیں۔ اس سلسلے میں آکسیجن مشینوں کی ضرورت رہتی ہے لیکن یہ بہت مہنگی اور پیچیدہ ہوتی ہیں۔

ملاوی میں ایسی 5 مشینوں سے سینکڑوں بچوں کی جانیں بچائی جا چکی ہیں
ملاوی میں ایسی 5 مشینوں سے سینکڑوں بچوں کی جانیں بچائی جا چکی ہیں

امریکہ میں رائس 360 انسٹیٹیوٹ نے دیگر اداروں کے ساتھ مل کرایک ایسی مشین بنائی ہے جسے چلانے کے لیے بجلی کی ضرورت نہیں رہتی۔ تنزانیہ میں جب یہ مشینیں لگائی گئیں تو اس سے نومولود بچوں کی اموات میں 47 فیصد کمی نوٹ کی گئی۔ ایسے سسٹم عموماً چھ ہزار ڈالر میں دستیاب ہیں لیکن اس سستے نظام کی قیمت صرف چار سو ڈالر ہے۔

جب ملاوی میں آکسیجن فراہم کرنے والی ایسی پانچ مشینیں لگائی گئیں تو ایک سال تک ان میں سے کوئی بھی مشین فیل نہیں ہوئی۔

اس سسٹم کا نام ’ ببل کنٹینیوس پوزیٹو ایئر وے پریشر (BCPAP) ہے جسے اب دیگر ممالک میں بھی آزمایا جارہا ہے۔

رائس 360نے دیگر اہم ایجادات بھی کی ہیں ان میں ایک بیگ میں بند لیبارٹری اور درست مقدار بتانے والے سستی سرنجیں بھی شامل ہیں.

آدھے ڈالر کی پیپر مائیکروسکوپ

اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے طالب علموں نے کاغذ کی مائیکروسکوپ تیار کی ہے جسے اوریگامی خردبین یا فولڈسکوپ کا نام دیا ہے۔ اس انوکھی مائیکروسکوپ کو ایک چھوٹا بچہ بھی جوڑ کر استعمال کرسکتا ہے جس کی قیمت صرف پچاس سینٹ یا پاکستانی پچاس روپے ہے۔ اس کے ذریعے خون اور تھوک میں بیکٹیریا اور دیگر جراثیم کو دیکھا جاسکتا ہے اور اس سے بیماریوں کا پتا لگایا جاسکتا ہے۔

اس انتہائی سادہ مائیکرو سکوپ سے تھوک اور خون میں موجود جراثیم کا پتا لگایا جا سکتا ہے
اس انتہائی سادہ مائیکرو سکوپ سے تھوک اور خون میں موجود جراثیم کا پتا لگایا جا سکتا ہے

اس کے علاوہ فولڈ سکوپ سے بچوں میں سائنس اور بائیلوجی کی دلچسپی بھی پیدا کی جاسکتی ہے۔ اس وقت ہزاروں فولڈ سکوپ انڈیا اور افریقی ممالک میں فیلڈ ٹرائلز سے گزر رہی ہے تاکہ آزمائش کے بعد انہیں بہتر بنایا جاسکے۔

سائیکل واٹر فلٹر

جاپان کی ایک کمپنی نے ایسا واٹر فلٹر بنایا ہے جسے آسانی سے بائی سائیکل پر نصب کیا جاسکتا ہے۔ سائیکلوکلین نامی یہ ایجاد چلتی ہوئی سائیکل کی توانائی استعمال کرکے گندے پانی کو صاف اور پینے کے قابل بناتی ہے۔ اس فلٹر کو سائیکل کے گھومتے ہوئے پہیے کے علاوہ ہینڈ پمپ کے ذریعے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ پورا سسٹم ایک چھوٹے بریف کیس میں سما سکتا ہے۔ سائیکلوکلین گرد اور مٹی کے ساتھ ساتھ کئی جراثیم کا خاتمہ کرتا ہے۔

یہ واٹر فلٹر سائیکل کی توانائی سے پانی کو موثر انداز میں صاف کرتا ہے
یہ واٹر فلٹر سائیکل کی توانائی سے پانی کو موثر انداز میں صاف کرتا ہے

جاپان کے تین ڈیزائنروں نے مل کر ایک خاص بیگ تیار کیا ہے جو سورج کی حرارت اور روشنی سے الٹراوائلٹ روشنی جذب کرکے پانی کو بڑی حد تک جراثیم سے پاک کردیتا ہے۔ ان بیگز کی خاص بات یہ بھی ہے کہ انہیں کھانے کی اشیا اور اناج تقسیم کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے اور اس کے بعد یہ واٹر فلٹر بیگ بن جائے گا۔ اس میں پندرہ نینومیٹر فلٹر کی ایک جھلی لگی ہے جو دھول مٹی تو کیا کئی جراثیم کو بھی روک دیتی ہے۔ مزید تفصیلات کے لیے دیکھیے ۔

گریوٹی لائٹ

کراؤڈ فنڈنگ سے ممکن ہونے والی یہ اہم ایجاد دنیا کے اندر کروڑوں افراد کے لیے روشنی کی ایک کرن ہے جو مرکزی گرڈ سے دور واقع ہیں یا پھر بجلی سے محروم ہیں۔ اس کی قیمت مشکل سے پانچ سے دس ڈالر ہیں ہے جس کے ہزاروں پروٹو ٹائپ اس وقت دنیا کے پچیس ملکوں میں فیلڈ ٹرائل سے گزارے جارہے ہیں تاکہ ہر جگہ اور موسم میں اس کی افادیت معلوم کی جاسکے۔

تین سیکنڈ میں چارج ہونے والی اس لائٹ کی قیمت صرف 500 روپے ہے
تین سیکنڈ میں چارج ہونے والی اس لائٹ کی قیمت صرف 500 روپے ہے

یہ ایل ای ڈی لائٹوں کا مجموعہ ہے جس کے ایک سرے پر چند کلو وزن لٹکایا جاتا ہے۔ جب وزن کو زمین سے چھ فٹ اوپر اُٹھایا جاتا ہے تو وزن سے جڑی ڈور دھیرے دھیرے کھسکھتی ہے اور یوں گریویٹی ( ثقل) سے بننے والی توانائی بجلی کی توانائی میں تبدیل ہوجاتی ہے اسی لیے اسے ’گریوٹی لائٹ ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ صرف تین سیکنڈ میں بیگ اوپر اٹھائیے اور یہ لیمپ آدھے گھنٹے تک روشنی دیتا رہے گا۔ اس ایجاد سے ریڈیو اور دیگر آلات چارج بھی کیے جاسکتے ہیں۔

غریب ممالک اپنی شاموں کو روشن رکھنے کے لیے لکڑی جلاتے ہیں جس کا دھواں گھر کے اندر آلودگی پیدا کرتا ہے۔ یا مٹی کے تیل سے آتشزدگی اور سانس کی بیماریاں ہوسکتی ہیں۔ اس کا بہترین حل گریوٹی لائٹ فراہم کرتی ہے۔

لائٹ وزن اٹھانے سے چارج ہوتی ہے اور اس کا سادہ ڈیزائن اسے ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ رکھتا ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Humaira Ashraf Nov 26, 2014 09:33am
بہت معلومات افزا مضمون ہے۔ لیکن کیا کیجیے کہ ہمارے ہاں عوام کی زندگی کی پرواہ نا حکومت کو ہے نا نجی اداروں کے مالکان کو۔ تعلیم صحت سے لے کر تقریبا عوامی خدمت کے ہر شعبہ زندگی کو کمرشل بنیادوں پر ہی چلایا جاتا ہے۔ یہ سستی مشینیں پاکستان میں ابھی دستیاب ہیں یا نہیں اس کا تو علم نہیں لیکن اندازہ یہ ہے کہ اگر حکومت ان کے منگانے کا اہتمام بھی کرے گی تو اپنے کمیشن کی مد میں اتنا ضرور وصولے گی کہ یہ سستی مشینیں سستی ہرگز نہ رہ سکیں گی۔