دکھ کا نیا پیغام

17 دسمبر 2014
پشاور میں طالبان حملے میں زخمی ہونے والا بچہ ہسپتال میں زیرِ علاج ہے۔ منگل، 16 دسمبر 2014 — اے ایف پی
پشاور میں طالبان حملے میں زخمی ہونے والا بچہ ہسپتال میں زیرِ علاج ہے۔ منگل، 16 دسمبر 2014 — اے ایف پی

انہوں نے اپنے دن کا آغاز یونیفارم میں کیا، اور اختتام کفن میں۔

16 دسمبر 2014 کی صبح آرمی پبلک اسکول پشاور میں امتحان کا وقت تھا، اور زیادہ تر بچے امتحان ہال سے باہر کھڑے پیپر شروع ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔

صرف ایک رات پہلے زبردست رٹے لگائے گئے ہوں گے، آخری منٹ میں کچھ سوال یاد کرنے کی کوشش کی گئی ہوگی، اور طلبہ سوچ رہے ہوں گے کہ وہ امتحان میں کیسی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے ہیں۔

ان کے ذہن صرف اور صرف ایک بات پر متوجہ ہوں گے، کہ کسی نہ کسی طرح اپنے دوستوں سے زیادہ نمبر حاصل کر لیے جائیں۔ انہوں نے مرنے کے بارے میں تو بالکل بھی نہیں سوچا ہوگا۔

ان کو مارنے کے لیے ان کے قاتل قبرستان سے ملحق دیوار پھلانگ کر اندر آئے، اور پہلے گراؤنڈ میں فائرنگ کی۔

اس کے بعد وہ امتحان ہال کی جانب آئے۔

خود کو بچانے کے لیے طلبہ زمین پر لیٹ گئے، اور اپنے نوجوان جسموں کو ان گولیوں سے بچانے کی کوشش کرنے لگے، جو ان کی جان لینا چاہتی تھیں۔ لیکن مارنے والے مارنے ہی کے لیے آئے تھے، اور عینی شاہدین کے مطابق فائرنگ میں کسی قسم کی افراتفری اور جلدبازی نہیں کی گئی۔

قاتلوں نے ایک ایک کر کے قتل کیے، پہلے ایک بچے پر گن تانی، پھر دوسرے پر، اور پھر تیسرے پر۔ اور اس طرح تب تک یہ کھیل تب تک جاری رہا جب تک تعداد سو سے اوپر نہیں پہنچ گئی۔

اب یہ بچے خاموش ہیں، اور اپنی اپنی قبروں میں جاچکے ہیں۔ ملک پھر حالتِ سوگ میں ہے، صدمے میں ہے، اور بربریت کی اس بدترین مثال پر ایک بار پھر غصے میں ہے۔

پاکستان میں پھٹ پڑنا جذبات کے اظہار کا عام طریقہ ہے، اور اب پچھلی ایک دہائی سے اس طرح کے حملے معمول بن چکے ہیں، تو آنسو بھی معمول کے مطابق سوکھ جاتے ہیں، اور زیادہ کچھ تبدیل نہیں ہوتا۔

اگر اس طرح کے حملے کے امکان پر غور کیا گیا ہوتا، اور تیاری اور سیکیورٹی بڑھا لی گئی ہوتی، تو شاید یہ ظلم، اس پر غصہ، اور پھر بھول جانا نہ پڑتا۔

اور اعداد و شمار سے یہ بات واضح ہے کہ اس کے امکانات موجود تھے۔ عالمی اتحاد برائے تحفظِ تعلیم (Global Coalition for Protection of Education) کی رپورٹ کے مطابق 2009 سے لے کر 2012 کے درمیان پاکستان بھر میں اسکولوں پر 800 سے زائد حملے ہوچکے ہیں۔

ایک دو نہیں، بلکہ قتلِ عام کی 800 وارننگز کو یا تو کچرے میں ڈال دیا گیا، یا اخبارات کے پچھلے صفحوں پر۔

ہیروشیما پر بمباری کے بعد کے سالوں میں جاپانیوں نے مرنے والوں کی یاد میں یادگار تعمیر کی۔ بہت ہی مشکلوں سے انہوں نے مرنے والوں کے زیرِ استعمال رہنے والی چیزوں کے ٹکڑے جمع کیے، تاکہ وہ اس بات کی یاد دلاتے رہیں کہ انسان کس قدر گر سکتا ہے۔

ان یادگاری چیزوں میں سے جو سب سے زیادہ دل توڑ دینے والی ہیں، وہ بچوں کی ہیں، اور ان میں آدھا کھایا ہوا لنچ، نامکمل کاپیاں، اور خون آلود یونیفارم شامل ہیں۔

وہ بچے اب نہیں رہے، لیکن کم از کم ان کو یاد رکھا جائے گا، ان کی معصومیت وہ لافانی معصومیت ہے جو کئی دہائیوں سے انسانیت کی اس مجرمانہ بے حسی کا نوحہ پڑھ رہی ہے۔

لیکن پاکستان میں جہاں نوجوان، بچے، بوڑھے، سبھی نشانہ بنے ہیں، وہاں اس طرح کی کوئی بھی ماضی کی یاد کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ ہر حملے کے ساتھ بڑھتی ہوئی بربریت کے بعد اب اتنی جگہ موجود نہیں کہ ہر کسی کی تفصیلات یاد رکھی جائیں۔

ہم دیکھتے ہیں، ٹھنڈی سانس بھرتے ہیں، خیالات جھٹک دیتے ہیں، اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔

اور اسی دوران حملے جاری رہتے ہیں، اور اس ملک کے لیے دکھوں کا نیا پیغام لاتے ہیں، جو اب قتلِ عام کا شکار ہوئے بچوں کے حوالے سے یاد رکھا جائے گا۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Arshad Dec 17, 2014 04:25pm
Still nothing will come out of our leader's conference, since their children are safe and sound outside this unfortunate country which is a "Charahgah" of our beloved leaders.
jami Dec 17, 2014 06:51pm
kaun kisky k liye dukhi hu ga yeh sab wha hta hy jhan insaniyat hti hy hum as a nation char din royein gy shaur kre gy aur bhool jaien gy......woh 5th day phir hamari gardanein utarny ajaien gy..hum behis hein hmary leader behis hein