طالبان حامیوں کے خلاف کھڑے ہونے کا وقت

اپ ڈیٹ 22 دسمبر 2014
سول سوسائٹی کے اراکین آرمی پبلک اسکول کے متاثرین کے لیے شمعیں جلائے کھڑے ہیں— اے پی فوٹو
سول سوسائٹی کے اراکین آرمی پبلک اسکول کے متاثرین کے لیے شمعیں جلائے کھڑے ہیں— اے پی فوٹو

رواں ہفتے پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے کے بارے میں بہت کچھ کہا جاچکا ہے اور اب بھی اس پر بولتے رہنے کی ضرورت کو کم نہیں قرار دیا جاسکتا۔

بیشتر افراد کی طرح میں نے بھی سوشل میڈیا نیوز فیڈز پر سولہ دسمبر کے دن کی بدترین خبروں کو دیکھا۔ میں نے اپنی سمجھ بوجھ کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے کبھی صحافیوں کی جانب سے غم زدہ والدین کے چہروں میں بے حسی سے مائیک دیے جانے پر غصہ محسوس کیا، اور کبھی ہلاک ہونے والے بچوں کی تصاویر کو دکھانے کے اخلاقی پہلوؤں پر غور کرنے کی کوشش کی۔

میں نے ورثاء کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر فیس بک پر اپنی پروفائل پکچر کو سیاہ رنگ سے تبدیل کردیا۔ لیکن یہ اقدام اس حقیقت پر بھی معذرت ہے کہ میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتی اور اس کے ذریعے مجھے اپنے ضمیر کو کچھ تسلی دینے میں مدد ملی۔

میں نے سولہ دسمبر، جو ہماری تاریخ کا سب سے بدترین قتل عام ہے پر مختلف لوگوں کی جانب سے کیے جانے والے طرح طرح کے قیاس بھی پڑھے۔

میں نے سب کچھ کیا۔

میں نے واضح چیزیں کہنے کی کوشش کی: اس انتشار میں معنی تلاش کرنے کی کوشش کی۔ ایسی صورتحال میں ہم یہی تو کرتے ہیں۔

مگر ایک چیز نے فرق قائم کردیا۔

میں رونے لگی۔

میں کئی روز تک روتی رہی ہوں۔ برسوں پہلے میں خبروں کو دیکھتے ہوئے رونے لگتی تھی مگر کچھ سال پہلے جب جنسی زیادتی کے واقعات اور جنوبی پنجاب کے اضلاع میں تیزاب پھینکنے سے متاثرہ افراد کی کہانیاں روزانہ آنے لگیں تو ایک وقت ایسا آیا کہ میں نے رونا چھوڑ دیا۔ یہ وہ وقت تھا جب میں ایسے واقعات کو بطور 'خبر' لینے لگی جن کا نشانہ 'دیگر افراد' بن رہے تھے۔

یہ وہ وقت تھا جب میں نے خود کو ان دلخراش واقعات سے بطور صحافی خود کو الگ کرلیا اور ان سے ایک عام فرد کی طرح متاثر نہیں ہونے لگی۔

اس سے مجھے مدد ملی، پر میں خوش ہوں کہ اب ایسا نہیں ہے۔ مجھے اس صلاحیت پر خوشی ہے کہ میں اب بھی اپنی ذات کے علاوہ دیگر افراد کی تکالیف پر آنسو بہا سکتی ہوں۔ مجھے اس پر قائم رہنا چاہیے۔ آج کے پاکستان میں اپنے درد کے علاوہ دوسروں کا درد محسوس کرنا بہت ہی نایاب جنس ہے۔

جذبات کے روایتی اثرات یعنی صدمے، غصے، دکھ وغیرہ سے گزرتے ہوئے مجھے تھوڑی دیر بعد احساس ہوا کہ یہ سانحہ ان 'دیگر واقعات' جیسا نہیں۔

پاکستان کو اب تک کئی بار بیدار ہوجانے کی وارننگز مل چکی ہیں اور ہر بار ہم خود کو عزم کرتے دیکھتے اور سنتے ہیں، مگر ایک یا دو روز بعد سب کچھ تبدیل ہوجاتا ہے۔

ہم اس پر بحث کرتے ہیں کہ 'کیا کرنے کی ضرورت ہے' اور 'کون کرے گا'۔ جس جس پر بھی الزام لگ سکے، ہم اس پر الزام عائد کردیتے ہیں۔

لیکن اس کا الزام ہم کس پر لگائیں؟

کیا ہم عمران خان کے دھرنے کو کو موردِ الزام ٹھہرائیں، یا نواز شریف کی بے پروائی کو؟

ضربِ عضب کو اس کا ذمہ دار سمجھیں، یا امریکا کو؟

گزشتہ دو روز کے دوران ہم نے دیکھا ہے کہ ملک اس قتلِ عام پر متحد کھڑے ہونے پر خود کو 'مبارکباد' دے رہا ہے: 'دھرنا ختم کرنے کے اعلان' پر عمران خان کی تعریف کی گئی، تو ہمارے وزیراعظم کو سزائے موت کے قیدیوں کو پھانسی پر لٹکانے کے فوری اقدام پر سراہا گیا۔ ہم سب مبینہ طور پر 'متحد' ہوگئے ہیں۔

کیا واقعی؟

کیا ہمارا معیار اس حد تک گر چکا ہے کہ ہم ایک غیرانسانی المیے پر انسانی ردعمل پیش کرکے خود کو مبارکباد دے رہے ہیں؟ بظاہر تو ایسا ہی لگتا ہے۔

میں نے اس کے برعکس ذمہ داری لینے کی کوشش کی۔

مجھے اب اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ ہمارے سیاستدان کیا کرسکتے ہیں، ہماری حکومت کیا کرسکتی ہے، ہماری فوج دہشت گردی کے خلاف کیا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

یہ وقت ہے کہ ہم خود سے سوال کریں کہ ہم کیا کرسکتے ہیں۔

سب سے پہلے تو ہمیں اپنے درمیان موجود طالبان کے حامیوں کے سامنے کھڑا ہونا چاہیے۔

گزشتہ دو روز کے دوران میں ایسے چار افراد کا سامنا کر چکی ہوں، جن میں سے ایک کا تعلق میرے اپنے خاندان سے تھا۔ یہ لوگ اپنی ذاتی سیاست اور نظریات کی بنا پر گمراہ کن اور غیرمناسب الزامات لگاتے ہیں۔ ہر وہ شخص دہشت گردی پر بات کرتے ہوئے 'حکومت، ہندوستان، امریکا، اسرائیل' کا اضافہ 'حقیقی مجرم' کے نام سے کردیتا ہے، جبکہ حقیقی مجرم فخریہ انداز میں اپنے اقدامات کرتے رہتے ہیں۔

مجھے جب بھی ایسے ردعمل کا سامنا ہوتا تھا تو میں ہمیشہ ان سے منہ موڑ کر انہیں ان کی خیالی جنت میں جینے دیتی تھی۔ لیکن اب اسے رکنا چاہیے۔

جب ہمارے ہاں تحریکِ طالبان پاکستان پریس کانفرنس کرتے ہوئے کسی حملے کی ذمہ داری قبول کرے، اور کوئی کہنے لگے کہ 'نہیں نہیں تم ایسا نہیں کرسکتے' درحقیقت یہ حکومت کی دھرنے سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے/ یہ فوج کا کام ہے/ یہ ہندوستانی سازش ہے'، تو انہیں واضح طور پر طالبان کا حمایتی قرار دے دیا جانا چاہیے۔

یہ مضمون لکھتے وقت میرے ارگرد یونیورسٹی کے ڈائننگ ہال میں طالبعلموں کا ہجوم تھا۔ پاس کھڑے دو افراد کہہ رہے تھے "آپ فوج کے ذریعے دراندازی تو ختم کرسکتے ہیں مگر دہشتگردی کو ختم نہیں کرسکتے۔ دہشت گرد ہم پیدا کر رہے ہیں"، یہ سن کر میں اس سوچ میں گم ہوگئی کہ یہ الفاظ کس حد تک 'آل دی لٹل لیو تھنگز' میں والس اسٹیگنر کے الفاظ: "ایک طرح سے ہم سب ہی ایک دوسرے کا نتیجہ ہیں۔"

ہم بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔

ہم نے اپنے مذہب کی تعلیمات کا مطالعہ نہ کرکے طویل عرصہ پہلے ہی اسلام کو انتہاپسندوں کے حوالے کردیا تھا۔

لفظ طالبان عربی کے طالب کی جمع ہے جس کے معنی 'طالبعلم' ہے۔

لفظ مدرسے کا مطلب اسکول یا کسی قسم کی تعلیمی درس گاہ ہے۔

اب اس بات کو ایک لمحے کے لیے یہ حقیقت ہضم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان 'طالبعلموں' نے دیگر طلباء کو قتل کردیا۔

میں ایک استاد ہوں جو ایک تعلیمی ادارے میں پڑھاتی ہوں، اگر عربی میں کہیں تو تکنیکی طور پر میں 'طالبان' کو ایک مدرسے میں تعلیم دیتی ہوں۔ مگر کیوں ہم نے بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان الفاظ کو اپنے مذہب کی طرح ان انتہاپسندانہ سوچ رکھنے والے افراد کے لیے چھوڑ دیا؟

یہ تقریباً ناممکن ہے کہ ہم ان الفاظ کو دوبارہ اپنا سکیں، مگر ہمیں ایسا لازمی کرنا چاہیے۔

یہ وقت ہے کہ ہم تشدد کے جواب کے حق کو واپس حاصل کریں تاکہ کہیں بھی، کبھی بھی یا اس کی تبلیغ کرنے والوں کو موثر جواب دیا جاسکے۔

ہمیں اپنے مذہب کو پڑھنے کے لیے وقت نکالنا ہوگا اور اس کا خود تجزیہ کرنا ہوگا، تاکہ دیگر لوگ ہماری رائے پر اثرانداز نہ ہوسکیں۔ یہی وقت ہے کہ مسجد، عالم اور مدرسے کو ایسا بنا دیں جہاں ہم بات کر بھی سکیں اور سن بھی سکیں۔

ہمارے وزیراعظم نے فراخ دلی سے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستانی حکومت 'اچھے' اور 'برے' طالبان کے درمیان اب اور فرق نہیں کرے گی، جو بالواسطہ طور پر اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ ہم اب تک ایسا کرتے رہے ہیں۔

اس کا مطلب کیا ہے؟

کیا اس سے مراد مدارس میں اصلاحات ہے؟

صاف الفاظ میں بات کی جائے تو ہمارے 'اچھے طالبان' ایسے افراد ہیں جو نفرت اور انتہاپسندی کی تبلیغ کرتے ہیں جبکہ ہمارے 'برے' طالبان وہ ہیں جو کھلے عام اس پر عمل کرتے ہیں۔

تو پھر اس وقت کیا ہوگا جب 'اچھے طالبان' کا موڈ خراب ہوجائے؟

تو کیا ہمیں اس وقت تک انتظار کرنا چاہیے جب تک کوئی اقدام ناگزیر نہیں ہوجاتا یا آخرکار جرأت سے کام لیتے ہوئے اس مسئلے کی جڑ کاٹنے کے لیے سرگرم ہوجانا چاہیے؟

معروف سوئس ماہر نفسیات الزبتھ کبلر روس کے مطابق زندگی میں دکھ کے پانچ مراحل ہوتے ہیں جن سے گزر کر ہمیں کسی کی موت اور اس کے بعد کے حالات سے نمٹنے میں مدد ملتی ہے۔

ان مراحل میں انکار، غصہ، بات چیت، ڈپریشن اور قبولیت شامل ہیں، ایک قوم کے طور پر ہم موجودہ عہد میں ان تمام مراحل سے گزر چکے ہیں۔

مگر تمام تر احترام کے ساتھ میں روس کے اس تجزیے سے انکار کرتی ہوں۔

پاکستان اور اس کے بچوں کے لیے ہمیں چھٹے مرحلے کی بھی ضرورت ہے، ہمیں ایکشن کی ضرورت ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Imtiaz.ul.haq Dec 22, 2014 08:38pm
Word Taliban was introdused by Zia ul haq Marshal Law Govt,s written advise to print media in 1984.This to be seen in all national and local news papers documents.Keep in mind this TALIBAN word given by US to Zia Govt against Sovet Union invalement in Afaginistan.