بہادر زمبابوے ٹیم اب بھی بہت بڑا خطرہ

اپ ڈیٹ 25 فروری 2015
سین ولیمز زمبابوے کے سب سے کامیاب بلے باز رہے، انہوں نے 76 رنز بنائے۔ فوٹو رائٹرز
سین ولیمز زمبابوے کے سب سے کامیاب بلے باز رہے، انہوں نے 76 رنز بنائے۔ فوٹو رائٹرز

آپ کو زمبابوے کی بہادر ٹیم کو سراہنا ہوگا، کرس گیل کے ہاتھوں پٹائی کے بعد ہر ایک کو یہی لگ رہا تھا کہ اس ٹیم کی ہمت ٹوٹ چکی ہے اور وہ 373 رنز (جو مختصر بارش کے بعد 363 ہوگیا) کے پہاڑ جیسے ہدف کے تعاقب میں اس کے بلے باز بہت جلد پویلین واپس لوٹ آئیں گے مگر انہوں نے بھرپور ہمت کا مظاہرہ کیا۔

شروع میں ہی دو وکٹیں گر جانے کی وجہ سے فتح یقیناً ان سے بہت دور نظر آنے لگی تھی مگر پھر بھی زمبابوے نے 289 رنز اسکور کرکے نہ صرف اپنی بیٹنگ کی گہرائی بلکہ اس سے بھی اہم اپنے جوش و جذبے کے اظہار کیا، وہ ورلڈکپ میں صرف اپنے میچز کے نمبرز کی تعداد بڑھانے کے لیے نہیں آئے بلکہ وہ سنجیدہ حریف ہیں۔

جنوبی افریقہ اور ویسٹ انڈیز سے شکستیں نے ان کے دل کو نہیں توڑا اور نہ ہی ٹورنامنٹ میں مکمل طور پر اپنے مقصد سے دستبردار ہوئے ہیں، دو سخت حریفوں کے مقابلے میں زمبابوے نے اپنا اسکورنگ رن ریٹ متاثرکن رکھا۔

اس کا مطلب ہے کہ پول بی کی دیگر ٹیمیں ریلیکس ہونے کا خطرہ مول نہیں لے سکتیں، اگرچہ ہندوستان دو فتوحات کے بعد کوارٹر فائنل تک رسائی کے قریب ہے تاہم پاکستان، ویسٹ انڈیز اور یہاں تک کہ جنوبی افریقہ کی مہم جوئی اب بھی خطرے کی زد میں ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ورلڈکپ میں اب تک ہونے والے زیادہ مسابقتی میچز کمزور سمجھی جانے والی ٹیموں کے ساتھ نظر آئے ہیں۔ آئرلینڈ نے ویسٹ انڈیز کو شکست دی، زمبابوے نے جنوبی افریقہ اور ویسٹ انڈیز کے لیے مشکل پیدا کی اور یو اے ای بھی اپ سیٹ کرنے کے قریب پہنچ گیا تھا۔

سری لنکا نے بمشکل افغانستان کے خلاف کامیابی کو اپنے نام کیا جبکہ اسکاٹ لینڈ نے فیورٹ نیوزی لینڈ کو دن میں تارے دکھا دیئے۔

اس کے مقابلے میں بڑی ٹیموں کے درمیان کھیلے جانے والے میچز مکمل طور پر یکطرفہ رہے ہیں۔ پاکستان اور جنوبی افریقا ہندوستان کے سامنے بہت آسانی سے ہار گئے جبکہ ایسا ہی انگلینڈ کے ساتھ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا نے کیا۔

ٹورنامنٹ کے آغاز کے دس دن بعد بھی اب تک بہترین اور آخری اوور تک چلنے والے میچ کا اختتام سامنے نہیں آسکا جو محدود اوورز کی کرکٹ کو دیکھنا سنسنی خیز بناتا ہے، چونکہ ابھی ٹورنامنٹ آگے بڑھ رہا ہے اور کھلاڑی اپنے اعصاب کو قابو اور ٹیمیں سیٹ ہورہی ہیں۔

اس ہائی پروفائل ایونٹ اور اس کے ارگرد چیزوں کو سوشل میڈیا نے جس طرح بخار بنایا ہے اس کے نتیجے میں کھلاڑی خود کو شدید دباﺅ کا شکار محسوس کررہے ہیں اور بہت سخت جان ہی اس پر فوری یا مناسب طریقے سے قابو پاسکتے ہیں۔

مجھے شبہ ہے کہ ایسے کچھ کھلاڑی جنھیں ہیرو سمجھا جارہا ہے وہ اختتام میں زیرو بن جائیں گے۔ کرکٹ ایسا کھیل ہے جو غیر یقینی چیزوں سے بھرا ہوتا ہے اور ہم سب یہ جانتے ہیں مگر یہ اس وقت حقیقی معنوں میں ظالم بن جاتا ہے جب اسٹیج اور موقع بڑا ہوتا ہے۔

ایک کھلاڑی ہے جو قسمت کا دھارا بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور وہ یقیناً کرس گیل ہیں۔ ویسٹ انڈیز کے اولین دو میچوں میں گیل جامد اور ساکت نظر آئے اور اس کا اثر اتنا زیادہ تھا کہ ویسٹ انڈیز کرکٹ بورڈ ڈیو کیمرون تک کی جانب سے اس کھلاڑی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا، جنھوں نے ایک ناخوش پرستار کا پیغام ری ٹوئیٹ کیا کہ گیل کو ریٹائرمنٹ پیکج کیوں نہیں دیا گیا۔

تاہم اس طنز نے کرس گیل کو بدل دیا اس بارے میں کچھ واضح نہیں اگرچہ ایسا لگتا ضرور ہے۔ کسی بھی عظیم کھلاڑی کو اہمیت نہ دینا ہمیشہ خطرناک ثابت ہوتا ہے چاہے آپ کا اس سے تنازع ہی کیوں نہ چل رہا ہو کیونکہ آپ نہیں جانتے کہ وہ کتنے مضبوط انداز سے ردعمل کا اظہار کرے گا۔

ویسٹ انڈیز پلیئرز ایسوسی ایشن نے اپنے صدر کے خلاف باضابطہ احتجاج ریکارڈ کرایا اور یہ اپنی طرز میں غیرمعمولی چیز تھی مگر سب سے بڑا ردعمل کرس گیل کے بلے کی جانب سے سامنے آیا۔ زمبابوے کے بدقسمت باﺅلرز کی گیندوں کو اسٹیڈیم سے باہر پھینکا گیا تاہم مجھے تو لگتا ہے کہ کرس گیل کا اصل ہدف ویسٹ انڈین بورڈ کے صدر تھے۔

ہر کوئی اس کو جیسے بھی دیکھے اس تنازع کا نتیجہ ورلڈکپ تاریخ میں پہلی ڈبل سنچری کی شکل میں نکلا اور میں یہ کہنے کی جسارت کرنا چاہتا ہوں کہ یہ آخری بار نہیں جب بلے اور بلے باز نے گزشتہ دہائی میں اس طرح کی پیشرفت کی ہو۔

درحقیقت اس ٹورنامنٹ میں ایک اور ڈبل سنچری سامنے آنے والی ہے اور ہوسکتا ہے کہ یہ کرس گیل کی ہی جانب سے سامنے آئے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں