'سندھ طاس معاہدہ مستقبل کے مسائل پر خاموش ہے'

21 مارچ 2015
سکھر کے مقام پر دریائے سندھ پل کے نیچے سے گزر رہا ہے۔ —. فائل فوٹو اوپن سورس میڈیا
سکھر کے مقام پر دریائے سندھ پل کے نیچے سے گزر رہا ہے۔ —. فائل فوٹو اوپن سورس میڈیا

کراچی: سندھ طاس معاہدے پر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان 1960ء میں دستخط ہوئے تھے، اس کے بعد سے سالوں میں اُبھرنے والے تنازعات اور خدشات پر غور نہیں کیا گیا۔ ان میں موسمیاتی تبدیلیاں اور زیرِزمین پانی کے انتظام کے مسائل شامل تھے، جب یہ معاہدہ تیار کیا جارہا تھا، تو اس وقت ان کا ذکر نہیں کیا گیاتھا۔

ان خیالات کا اظہار اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے سابق ڈپٹی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر شفقت کاکاخیل اور واپڈا کے سابق مینجنگ ڈائریکٹر خالد موحتد اللہ نے کیا۔

وہ ’سندھ طاس معاہدہ 1960ء: مسائل اور خدشات‘ کے موضوع پر پاکستان انسٹیٹیوٹ برائے بین الاقوامی معاملات کے زیراہتمام ایک مذاکرے سے خطاب کررہے تھے۔

اس معاہدے کے اثرات اور اس پر عملدرآمد میں سامنے آنے والے چیلنجز کی تلاش سے پہلے شفقت کاکاخیل نے اس معاہدے کا ایک جامع پس منظر پیش کیا، جس میں خالد موحتد اللہ نے قابلِ قدر اضافہ کیا۔

شفقت کاکاخیل نے کہا کہ تقریباً آٹھ صفحات پر مشتمل اس معاہدے کی چار اہم خصوصیات تھیں۔

انہوں نے بتایا ’’پہلی دریائے سندھ اور اس کے پانچ بڑے معاون دریاؤں کی تقسیم سے متعلق ہے۔ تینوں مشرقی دریاؤں، ستلج، بیاس اور راوی کا سارا پانی ہندوستان کے لیے دستیاب ہوگا، جبکہ پاکستان مغربی دریاؤں (دریائے سندھ، جہلم اور چناب) کا سارا پانی بلاروک ٹوک استعمال کرے گا،ہندوستان کے لیے لازم ہوگا کہ وہ ان دریاؤں میں پانی کے بہاؤ کو برقرار رکھے۔‘‘

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ پانی کے اشتراک کا نہیں، بلکہ پانی کی تقسیم کا معاہدہ تھا۔

شفقت کاکاخیل نے کہا کہ اس کی دوسری خصوصیت پاکستان کو مشرقی دریاؤں کے پانی کے نقصان کا معاوضہ دینے کے انتظامات کے بارے میں تھی۔

جس کے تحت متبادل کاموں کی تعمیر کے لیے سرمائے کا انتظام کیا جانا تھا، مثلاً دریائے سندھ پر تربیلاڈیم اور جہلم پر منگلا ڈیم اور آٹھ لنک کینال شامل ہیں، جن کی مغربی دریاؤں سے ان علاقوں میں آنے والے پانی کو ذخیرہ کرنے اور آگے بڑھانے کے لیے ضرورت پڑنی تھی، اس معاہدے کے تحت مغربی دریاؤں سے آبپاشی کی ذمہ داری اب تک ہندوستان کے پاس ہے۔

انہوں نے کہا ’’سرمائے کے انتظامات اس مذاکرات کی کامیابی کے لیے ایک فیصلہ کن عنصر تھے۔ پاکستان ڈیموں اور لنک کینال کی تعمیر کے لیے فنڈز کی غیرموجودگی تین مشرقی دریاؤں کے اس معاہدے پر راضی نہیں ہوتا۔‘‘

انہوں نے واضح کیا کہ دیگر خصوصیات ایک انڈس کمیشن، جسے دونوں ملکوں کی طرف سے مقررہ معروف انجینئروں کی قیادت میں تشکیل دینا، اور مسائل اور تنازعات کے حل کے لیے طریقہ کار کی تیاری، جنہیں کمیشن کی جانب سے حل کیا جانا تھا، اور اگر مسائل اور تنازعات تیکنیکی نوعیت کے تھے تو پھر انہیں غیرجانبدار ماہر کے سپرد کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا ’’اور اگر غیرجانبدار ماہر بھی اس معاملے کو حل کرنے کے قابل نہ ہوا تو پھر دونوں فریقین اسے ثالثی کی عدالت میں لے جاسکتے ہیں۔‘‘

اس موضوع پر بات کرتے ہوئے انہوں اس معاہدے کے کچھ اہم خدشات اور مسائل پر روشنی ڈالی۔

شفقت کاکاخیل نے کہا ’’انڈس کمیشن نے اس معاہدے پر توجہ دینے میں مؤثر کردار ادا نہیں کیا۔ تمام تنازعات ثالثی کی عدالتوں کی جانب سے طے کیے گئے، جو ہمارے لیے انتہائی مہنگے ثابت ہوئے۔‘‘

اس کے علاوہ اس کمیشن میں شامل لوگوں اور اس کے عملے کی قابلیت کے بھی مسائل تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اس کمیشن کی استعداد کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔‘‘


معاہدے میں غفلت


جب اس معاہدےکا مسودہ تیار ہورہا تھا، ایسے مسائل موجود تھے، جن کا ادراک نہیں کیا گیا اور یہی وجہ ہے کہ انہیں اس میں شامل نہیں کیا گیا۔

شفقت کاکاخیل نے کہا مثال کے طور پر زیرِزمین پانی کے مناسب انتظام پر یہ خاموش ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’’اس کے علاوہ یہ پانی کے معیار کے مسئلے پر بھی خاموش ہے، جسے زہریلے صنعتی فضلے سے آلودہ کیا جارہا ہے۔ یہ دریاؤں کے سلسلے میں سرحد پار علاقوں میں واقع دریاؤں کے سیرابی علاقوں کو واٹرشید منیجمنٹ بھی فراہم نہیں کرتا۔ یہاں تک کہ یہ معاہدہ ہندوستان کو مغربی دریاؤں کے پانی کو آبپاشی اور بجلی کے منصوبوں کے لیے استعمال کی اجازت دیتا ہے، یہ اس طرز کے منصوبوں کی آبشاروں کے مجموعی اثرات کی جانچ کا مطالبہ نہیں کرتا۔‘‘

بعد میں موحتد اللہ نے زیرِزمین پانی کے مسئلے کے موضوع پر لیکچر دیا۔ انہوں نے کہا ’’پاکستان کی زراعت کا انحصار سطح پر موجود اور زیرِزمین پانی پر ہے۔

زیرزمین پانی میں جس شرح کے ساتھ کمی آتی جارہی ہے، وہ خطرناک ہے۔ اسے نمکین پانی سے بھی آلودہ کیا جارہا ہے، جس سے زیرِزمین پانی کے معیار میں بھی کمی آئی ہے۔

اس معاہدے کے بارے میں انہوں نے مزید کہا کہ اس کی شقوں کی تشریح نے بعد میں تنازعہ پیدا کیا۔ ’’اُس وقت میں اس معاہدے کی تیاری میں بطور ایک جونیئر آفیسر کے منسلک تھااور مجھے یاد ہے کہ ہائیڈروپاور کا استعمال سب سے زیادہ متنازع تھا۔‘‘

ان کے مطابق یہ معاہدہ ہندوستان کو تین مغربی دریاؤں پر خصوصی حقوق دیتا ہے، جبکہ مغربی دریاؤں پر پن بجلی کے منصوبوں کی تعمیر پر کوئی روک نہیں لگاتا۔

شفقت کاکاخیل نے کہا کہ ایک اور اہم مسئلہ جس پر معاہدے میں توجہ نہیں دی گئی، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات تھا۔

انہوں نے کہا ’’موسمیاتی تبدیلی میں ہندوکش ہمالیائی گلیشئر میں کمی اور تیزی سے پگھلنے کا مسئلہ بھی شامل ہے، مون سون کے پیٹرن کے ردوبدل نے دریائے کے بہاؤ اور دریا میں پانی کی سطح میں اضافہ کیا ہے۔ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت نے سیلابوں اور خشک سالی کی تعداد، دورانیہ اور شدت میں اضافہ کیا ہے اور میٹھے پانی کی آلودگی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ ان تمام عوامل نے بھی دستیاب پانی میں مجموعی کمی میں اہم کردار ادا کیا۔

شفقت کاکاخیل کا خیال تھا کہ تعاون کی بنیاد پر غیررسمی ٹریک ٹو مذاکرات کے ذریعے ہندوستان کو احساس دلایا جائے کہ ان مسائل پر مطالعے کی ضرورت ہے۔ ’’اس سے قبل ہندوستانی دلیل دیں گے کہ اس طرح کے مسائل کا معاہدے میں ذکر نہیں کیا گیا ہے اور وہ اس پانی کا استعمال غیرمصرف مقاصد کے لیے کررہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ ان مسائل پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔‘‘

انہوں نے گلیشئر کی نگرانی کے لیے مشترکہ نگرانی اور مشترکہ سائنسی مطالعہ کی سفارش کی اور کہا کہ گلیشئر میں آنے والی تبدیلیوں کے پیٹرن کے ساتھ ساتھ مون سون کے پٹرن کا بھی مطالعہ کیا جائے، اور سیلاب، خشک سالی اور دیگر شدید تباہ کن واقعات کی پیشگوئی اور ان سے نمٹنے کے لیے تعاون کیا جائے۔

شفقت کاکاخیل نے تیسرے ذرائع کے ساتھ رابطے کی بھی سفارش کی، جن میں ناسا کے سائنسدان، انسٹیٹیوٹ آف اوشنوگرافی، اور چینی ماہرین جو اس طرح کے مسائل پر سائنسی اہلیت کے حامل ہیں، جب وہ اپنی تجاویز اور سفارشات پیش کریں گے تو وہ اپنے مؤقف میں غیرجانبدار رہیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں