لاؤڈ اسپیکرز پر صلوٰۃ و سلام پڑھنا جرم؟

27 مارچ 2015
۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی
۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی

کراچی میں جہانگیر روڈ کے ساتھ ساتھ کلیٹن کوارٹرز اور مارٹن کوارٹرز کے درمیان ایک کشادہ ذیلی سڑک ایک تنگ گلی میں تبدیل ہوگئی ہے۔

جمعہ کی نماز کے بعد شہر کی نچلے متوسط طبقے کی دیگر ان گنت آبادیوں کی طرح اس گنجان آباد علاقے پر سکون خاموشی غالب ہے۔

میں رحمانیہ مسجد کے پیش امام عبدالعزیز قادری کے مشورے پر ایک نیم کے درخت کے نیچے کھڑا ہوں۔ اوپر درخت کی شاخوں پر چہچہانے والے پرندوں کی واحد آوازیں ہیں، جو سنائی دے رہی ہیں۔

جب میں نے عبدالعزیز قادری کو بلایا تو انہوں نے جواب میں کہا ’’وہاں انتظار کرو۔ میں ایک بچے کو تمہاری رہنمائی کے لیے بھیج رہا ہوں۔‘‘

چند منٹوں کے بعد میں مسجد کے برامدے میں تھا، جہاں چالیس یا شاید پچاس افراد جن میں زیادہ تر بچے اور نوجوان شامل تھے، ادھر اُدھر گھوم رہے تھے۔ کچھ ایک کونے میں بیٹھے بات چیت کررہے تھے، اور چند نماز ادا کررہے تھے، اور مٹھی بھر افراد قرآن کی تلاوت میں مصروف تھے۔

ایک باریش نوجوان جس نے کتّھئی رنگ کی پگڑی بھی پہن رکھی تھی نے مجھ سے کہا ’’مہربانی کرکے سلام کے لیے اندر آجائیے۔‘‘

پگڑی والا شخص مڑا اور خود کو عبدالعزیز قادری کے طور پر متعارف کراتے ہوئے بولا ’’عمران صاحب؟‘‘

انہوں نے کہا ’’ہمارے ساتھ شامل ہوجائیں۔ ہم سلام کے بعد بات کرسکتے ہیں۔‘‘

ہاتھ باندھ کر عبدالعزیز قادری منبر سے قریب ہوگئے اور سلام پڑھتے ہوئے ہر ایک کی قیادت کرنے لگے۔

مصطفٰے (ﷺ)جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام

بغیر کسی مائیکروفون اور ساؤنڈ سسٹم کے ان کے ارگرد کھڑے تمام لوگ ان کے ہم آواز ہوکر باآوازِ بلند احمد رضا خان بریلوی کے کلام کے اشعار پڑھ رہے تھے۔

انیسویں صدی کے عالم احمد رضا خان بریلوی کو جنوبی ایشیا میں بریلوی مکتبہ فکر کے بانی کہا جاتا ہے۔

سلام کے بعد عبدالعزیز قادری نے مجھے بتایا ’’ان دنوں یہی طریقہ ہے، جس کے تحت ہم سلام پڑھتے ہیں۔‘‘

میں نے اپنے تجسس کی تکمیل کے لیے میں نے ان سے ملاقات کی درخواست کی تھی۔

گزشتہ مہینے ہر جمعہ کی طرح یہ پیش امام اسی قدر لوگوں کے ساتھ سلام پڑھ رہے تھے کہ چند پولیس اہلکار مسجد میں داخل ہوئے اور ساؤنڈ سسٹم پر قبضہ کرلیا اور عبدالعزیز قادری سمیت سلام پڑھنے والے افراد کو دو موبائل گاڑیوں میں اپنے ساتھ قریبی پولیس اسٹیشن لے گئے۔

انہوں نے اس واقعہ کو یاد کرتے ہوئے کہا ’’انہوں نے ہمیں بتایا کہ اس کی (لاؤڈاسپیکر پر سلام پڑھنے کی) اب اجازت نہیں ہے۔ بعد میں ان کا افسر آیا تو اس نے کہا کہ یہ اب ایک غیرقانونی کام ہے، اور اسی وجہ سے ہمیں گرفتار کیا گیا ہے۔

پیش امام نے مسکراتے ہوئے کہا ’’لاؤڈاسپیکر پر سلام پڑھنا اس پاک سرزمین پر اب ایک ’جرم‘ ہے۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں؟‘‘

تاہم عبدالعزیز قادری اور دیگر لوگوں کو کسی قسم کے الزامات کا سامنا کیے بغیر چند گھنٹوں کے بعد رہا کردیا گیا، لیکن یہ رہائی علاقے کے لوگوں کے احتجاج کی دھمکی اور برادری کے کچھ معروف لوگوں کی جانب سے ان کے ’’چال چلن کی ضمانت‘‘ دینے کے بعد عمل میں آئی۔

انہوں نے کہا اس کے بعد سے تقریباً ایک مہینے سے ہر اذان سے پہلے اور جمعہ کی نماز کے بعد سلام بغیر لاؤڈاسپیکر کے پڑھا جارہا ہے۔

نیشنل ایکشن پلان کے تحت جمعہ کی نماز کے دوران عربی خطبے اور اذان کے سوا لاؤڈاسپیکر کے استعمال پر پابندی ہے۔ یہ حکومت کے کئی اقدمات میں سے ایک ہے جس کا اعلان کیا گیا تھا۔

بظاہر فرقہ وارانہ بنیادوں پر نفرت انگیز تقاریر کو روکنے، انتہاپسند نکتہ نظر کا کھلے عام اظہار کی حوصلہ شکنی اور مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے کیے گئے اس اقدام نے صلوٰۃ و سلام کی روایت کو بھی متاثر کیا ہے، جن پر بنیادی طور پر بریلوی مکتبہ فکر کی مساجد میں عمل کیا جاتا ہے۔

اس اقدام سے بہت سے لوگوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں، اور شہر میں ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہے، جنہیں پولیس کی جانب سے اس بنیاد پر حراست میں لیا گیا ہے۔

رحمانی جامعہ مسجد کا واقعہ اس طرح کی مثالوں میں سے ایک ہے۔ لیکن عبدالعزیز قادری کو یقین ہے کہ ’’لاؤڈاسپیکر کے غلط استعمال‘‘ کے خلاف سخت مہم کا یہ محض آغاز ہے، جس کے تحت ان جیسے دیگر لوگوں کو نشانہ بنایا جائے جو ’’صلوٰۃ و سلام سے محبت‘‘ کرتے ہیں۔

ان کا خوف گزشتہ ہفتے اس وقت بڑھ گیا، جب سندھ کے گورنر نے صوبے میں ساؤنڈ سسٹم کے استعمال پر کنٹرول کرنے اور اس کی نگرانی کرنے کے لیے سندھ ساؤنڈ سسٹم ریگولیشن آرڈیننس 2015ء جاری کیا تھا۔

پنجاب میں اس مہم کی وجہ سے پہلے ہی کافی ہلچل پھیلی ہوئی ہے، جہاں گزشتہ مہینے کے آخر میں حکومت نے دو ہزار سے زیادہ پیش اماموں اور دیگر لوگوں کو ’’لاؤڈاسپیکر کے غلط استعمال‘‘ پر گرفتار کیا تھا۔

بریلوی مکتبہ فکر کے لوگوں نے دعویٰ کیا ہے کہ اس تعداد میں وہ لوگ بھی شامل ہیں، جو اذان سے پہلے اور جمعہ کی نماز کے بعد سلام پڑھ رہے تھے۔

عبدالعزیز قادری کہتے ہیں ’’ہم پچھلے چند ہفتوں سے اپنا مؤقف اہل سنت کی جماعتوں کے رہنماؤ اور مفتی منیب الرحمان جیسے سینئر عالموں کے ذریعے آگے بڑھایا ہے کہ لاؤڈاسپیکر پر سلام پڑھنے سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔‘‘

انہوں نے کہا ’’زیادہ تر لوگ بلاخوف یہ کام کر رہے ہیں۔ ہم حکومتی قوانین سے سمجھوتہ کرسکتے ہیں، لیکن کیا حکومت اور پولیس اس بات کی ضمانت دے گی کہ اس سے امن آسکے گا؟ کیا اس سے نفرت انگیز تقاریر ختم ہوجائے گی؟ کیا اس سے انتہاءپسندی کا جڑ سے خاتمہ ہوجائے گا؟ یہ طریقہ دہائیوں پرانی روایت کو ختم اور اس پر یقین کرنے والے افراد کے جذبات کو مجروح کررہا ہے۔‘‘

تبصرے (5) بند ہیں

Aamir Mar 27, 2015 12:12pm
The Government should retrospect its decision, there should be no restriction on reciting Durood-o-Salam before Azan and after namaz.
Amjad Mar 27, 2015 02:28pm
I agree with Govt. on keeping ban on Loud Speaker, because use Loud Speaker is also have a role in sectarian violence.
Faisal Hussain Mar 27, 2015 04:47pm
This is the history of our political system that the work which should be . banned, its not banned & things who does not effect any one, its banned. The activities which was happen in Rawalpindi on 9th Moharam, same in Karachi since 2-3 years back, banned but no one have eye on it. So, act as a true muslim in a muslim state.
Noman Mar 27, 2015 08:56pm
@Amjad is it pakistan an islamic state?? Or a liberal so calles secular state. To recite drood o salam in loud speaker is not allowed but sound systems are allowed in concerts?? And in jalsas?? Hw govt justyfy this act to banned darood o salam on loud speaker. ??
عثمان Mar 29, 2015 12:15am
@Noman آپ کی دی گئی مثال میں کیا کانسرٹ میں استعمال ہونے والا ساونڈ سسٹم پورا محلہ سنتا ہے ؟ کانسرٹ میں وہی جاتے ہیں جو جانا چاہتے ہیں۔ اسی طرح مسجد میں درود سلام سننے وہی جائے جو جانا چاہتے ہیں نا کہ پورے محلے کو زبردستی سنایا جائے۔