'یمن کی صورتحال پر اے پی سی طلب کی جائے'

30 مارچ 2015
مولانا فضل الرحمان اور پیرپگارا راجہ ہاؤس پر اتوار کو ظہرانے پر ہوئی ملاقات کے بعد صحافیوں سے بات چیت کررہے ہیں۔ —. فوٹو پی پی آئی
مولانا فضل الرحمان اور پیرپگارا راجہ ہاؤس پر اتوار کو ظہرانے پر ہوئی ملاقات کے بعد صحافیوں سے بات چیت کررہے ہیں۔ —. فوٹو پی پی آئی

کراچی: جمیعت العلمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور مسلم لیگ فنکشنل کے رہنما پیر صبغت اللہ راشدی پگارا نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ یمن کے معاملے پر اپنی پالیسی کے بارے میں قوم کو آگاہ کرنے کے لیے ایک کل جماعتی کانفرنس (اے پی سی) یا پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرے۔

انہوں نے کہا کہ مسلمان ایک ایسی صورتحال سے لاتعلق نہیں رہ سکتے، جسے حرمین شریفین، خانہ کعبہ اور روضہ رسول (ﷺ) کی حرمت کا دفاع قرار دیا جارہا ہے، جو کہ مسلمانوں کی تحریک کا ایک ذریعہ ہیں۔

مولانا فضل الرحمان اور پیرپگارا راجہ ہاؤس پر اتوار کو ظہرانے پر ہوئی ملاقات کے بعد صحافیوں سے بات چیت کررہے تھے۔

جے یو آئی ایف کے سربراہ نے کہا کہ سعودی عرب پاکستانی فوج کو بھیجنے سے پہلے حکومت کو آل پارٹی کانفرنس (اے پی سی) بلانی چاہیے، تاکہ قومی مفادات کی بنیاد پر ایک پلان پر کام کیا جائے۔

حرجماعت کے روحانی پیشوا پیرپگارا نے دوگھنٹے جاری رہنے والی اس ملاقات کے دوران جے یو آئی ایف کے سربراہ کے ساتھ ملکی صورتحال اور یمن میں ہونے والی پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا۔

جے یو آئی ایف کے سربراہ نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان باہمی احترام پر مبنی تاریخی اور برادرانہ تعلقات تھے۔ ’’ہم اس بات کو کبھی فراموش نہیں کرسکتے کہ سعودی عرب نے ہر مشکل گھڑی میں ہمارے ملک کا ساتھ دیا ہے، اور ہم بھی ان کی توقع پر اترنے کی پوری کوشش کریں گے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ یمن کی صورتحال کا حل تلاش کرنے کے لیے عرب سربراہ کانفرنس طلب کرنی چاہیے تھے۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ پاکستان کو ایسی کارروائی سے گریز کرنا چاہیے، جو اسلامی دنیا کے لیے پریشانی کا سبب بن سکتی ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں امن، یکجہتی اور بھائی چارے کے جذبے کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔‘‘

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سعودی عرب فوجیوں کو بھیجنا ایک مشکل معاملہ ہے، اور اسی وجہ سے حکومت کو جلدبازی میں فیصلہ نہیں کرنا چاہیے اور اس سے پہلے تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کرنی چاہیے۔

انہوں نے کہا ’’ہمیں سعودی عرب کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات پر بھی نظر رکھنی چاہیے، لیکن اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ اسلامی دنیا کے ایک اہم ملک کی حیثیت سے پاکستان کو یمن میں جاری تصادم کے حل کی تلاش کے لیے کام کرنا چاہیے، اس لیے کہ ہم پہلے ہی افغانستان کے مسئلے میں پھنس گئے تھے اور اب تک اس سے باہر نہیں نکل سکے ہیں۔

مولانا فضل الرحمان نے خبردار کیا کہ سامراجی طاقتیں پاکستان کو ایک اور پریشان کن صورتحال میں پھنسانا چاہتی ہیں، اور اسی لیے ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

راضیہ سید Mar 30, 2015 03:41pm
یہ بات ہمیں اپنے ذہن میں ضرور رکھنی چاہیے کہ یمن میں عرب دنیا کا ایک مفاد ہے بلکہ یمن تو کیا شام ، فلسطین ، عراق ، مصر ، لبیا اور لبنان بھی اس سیاست سے اپنا دامن نہیں چھڑا سکتے ہیں ، یمن میں شیعہ حوثیوں کے بعد جو ردعمل سعودی عرب کی جانب سے سامنے آٰیا وہ ایک شدید نوعیت کا ہے ، سعودی عرب تمام مقامات مقدسہ کا حامل ہونے کے باوجود اس حقیقت سے نظر نہیں چرا سکتا کہ وہ شام اور عراق میں فرقہ واریت کو فروغ دے رہا ہے ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے مشرقی علاقوں میں بھی شیعہ افراد پر ظلم کر رہا ہے ، پاکستان کے ساتھ سعودی عرب نے بے شک ہر موقع پر حمایت کا یقین دلایا ہے لیکن کیا ایران نے اس سے بھی بڑھ کر نہیں کیا ؟ اسی طرح پاکستانی فوج کو پاکستانی حکموت براہ مہربانی غیروں کے مسائل میں نہ الجھائے کہ کہیں کویت اور عراق حملے کی داستان پھر سے نہ دہرائی جائے ، پاکستان کی فوج کو یہاں پاکستان میں بہت سے محاذوں پر لڑنا پڑ رہا ہے بلکہ یہ کہوں کہ یہ فوج نہ صرف دفاعی خدمات سرانجام دے رہی ہے بلکہ سیاسی حکومت کی ذمہ داریاں بھی ادا کر رہی ہے ۔۔۔ایسے میں ان کو یمن میں تو کیا کہیں بھی الجھانا درست نہیں ہے ۔