یمن بحران، او آئی سی سے کردار ادا کرنے کا مطالبہ

31 مارچ 2015
مشرقِ وسطیٰ کے بحران پر وزیراعظم کی زیرِ صدارت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کا ایک منظر۔ —. فوٹو اے پی پی
مشرقِ وسطیٰ کے بحران پر وزیراعظم کی زیرِ صدارت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کا ایک منظر۔ —. فوٹو اے پی پی

اسلام آباد/لاہور: حکومت نے اشارہ دیا ہے کہ وہ اسلامی تعاون کی تنظیم او آئی سی سے یمن میں تصادم کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کرنے کا مطالبہ کرنے جارہی ہے۔

مشرق وسطیٰ کے بحران پر ایک اور اعلیٰ سطح کے اجلاس کے بعد وزیراعظم کے آفس نے پیر کو جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’اس بحران کے فوری حل، امن کے فروغ اور مسلم اُمّہ کے اتحاد کے لیے وزیراعظم برادر ملکوں کی قیادت کے ساتھ رابطہ کریں گے۔‘‘

وزیراعظم نواز شریف کی زیرِ صدارت اس اجلاس میں وزیرِخزانہ اسحاق ڈار، وزیرِدفاع خواجہ آصف، وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی سرتاج عزیز، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف، چیف آف ایئر اسٹاف ایئر چیف مارشل سہیل امان، بحریہ کے قائم مقام سربراہ ایڈمرل خان حشام بن صدیق اور سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے شرکت کی۔

مسلم ملکوں کے رہنماؤں سے رابطے کے فیصلے کے ساتھ یا تو او آئی سی کی سربراہ کانفرنس کے طلبی یا اسلامی بلاک کے وزرائے خارجہ کی کونسل کا اجلاس طلب کیا جائے پر بھی غور کیا گیا، یا پھر حوثی باغیوں کے خلاف جنگ میں سعودی عرب کی ضروریات کا جائزہ لینے کے لیے ایک دفاعی وفد سعودی عرب بھیجا جائے۔

سعودی عرب کے لیے ’’فوج کی مکمل صلاحیت‘‘ کی مبینہ پیشکش کے باوجود، یمنی حوثیوں کے خلاف سعودی قیادت میں دس قومی اتحاد میں شرکت سے متعلق پاکستان نے اب تک عوامی سطح پر ایک مختلف پالیسی فیصلہ بیان کیا ہے۔

ستاون رکنی او آئی سی جسے اکثر اس کے غیرمؤثر ہونے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، میں پاکستان، سعودی عرب، مصر، ترکی، ملائیشیا اور ایران کا غلبہ ہے۔

یمن کے مسئلے پر دفترِ خارجہ پر ہونے والے تبادلۂ خیال میں شریک ایک ذرائع نے انکشاف کیا کہ او آئی سی کے ساتھ عرب لیگ نے اختتام ہفتہ پر عرب دنیا کی ایک سربراہ کانفرنس کے موقع پر دیے گئے اختیار کی توثیق کی تھی، جسے سعودی کارروائی کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کے لیے اقوامِ متحدہ میں بھی استعمال کیا جائے گا۔

اسی دوران وزیراعظم کے آفس سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’پاکستان اقوامِ متحدہ، او آئی سی اور بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس بحران کے سیاسی حل کی تلاش میں اپنا تعمیری کردار ادا کریں۔‘‘

یاد رہے کہ پچھلے بدھ کو حوثی باغیوں پر سعودی عرب کے فضائی حملے شروع ہونے کے بعد مشرق وسطیٰ کے بحران پر پہلے اجلاس میں حکومت نے اصولی بنیادوں پر فیصلہ کیا تھا کہ ’’سعودی عرب کی علاقائی سالمیت کو لاحق کسی بھی خطرے کا پاکستان کی جانب سے سخت جواب دیا جائے گا۔‘‘

اس فیصلے کا پیر کے اجلاس میں اعادہ کیا گیا، جس میں کہا گیا کہ ’’پاکستان سعودی عرب کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری کی حمایت پر سختی سے کاربند ہے، اور یہ عزم پاکستانی عوام کی امنگوں کے عین مطابق ہے۔‘‘

سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز، شہزادہ مقرن بن عبدالعزیز، وزیردفاع شہزادہ محمد بن سلمان اور انٹیلی جنس کے سربراہ خالد بن بند رنے پچھلے چھ دنوں میں وزیراعظم نواز شریف سے بات کی تھی۔

اس اجلاس کے بعد ٹی وی چینلز پر وزیرِدفاع نے کہا کہ سعودی اتحاد میں شامل ہونے کا کوئی بھی فیصلہ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کے بعد کیا جائے گا۔

خواجہ آصف کے ساتھ سرتاج عزیز کی قیادت میں ایک دفاعی ٹیم منگل کو ریاض جائے گی۔ سعودی عرب سے جائزہ مشن کی واپسی کے بعد اس مسئلے پر اگلا فیصلہ لے گی۔

پاکستانی فوجیوں کی سعودی عرب میں پہلے سے موجودگی پر بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹوں کو مسترد کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ آٹھ سو سے نو سو سپاہی سعودی عرب میں بطور مشیر اور تربیت کار کے موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سعودی عرب سے اب تک کوئی مخصوص درخواست موصول نہیں ہوئی ہے، اگرچہ وہ پاکستان سے توقعات رکھتے ہیں۔

دریں اثنا لاہور میں خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان سعودی عرب کی سالمیت اور خودمختاری کو چیلنج کرنے والے کسی بھی اقدام کو ناکام بنادے گا۔

انہوں نے عالمی یومِ آب کے موقع پر واپڈا کے زیراہتمام ایک سیمینار میں شرکت کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ ’’یمن کے بحران پر ہماری پالیسی بالکل واضح ہے۔ اور اس کے تحت سعودی سرزمین کو خطرے میں ڈالنے والے کسی بھی اقدام کو پاکستانی فوج ناکام بنادے گی۔‘‘

انہوں نے کہا کہ سعودی وزیرِدفاع نے پاکستانی جہازوں کو نو فلائی زون کے ذریعے یمن میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کی منتقلی کی اجازت دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ایک ایسے فیصلے تک پہنچنے کی کوشش کررہی ہے، جو ناصرف یمن کے بحران کو حل کرنے میں مدد دے گا، بلکہ ’’بالخصوص پاکستان اور بالعموم دنیا بھر کے مسلمانوں کے بہترین مفاد میں ہوگا۔‘‘

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں