اسلام آباد: پاکستان ایئرفورس (پی اے ایف) نے کل اسلام آباد ہائی کورٹ کو آگاہ کیا کہ اس نے جاسوسی کے الزامات کے تحت اسکواڈرن لیڈر حسن اختر کو حراست میں لیا تھا۔

اسکوارڈن لیڈر حسن اختر کی اہلیہ نے اپنے شور کی رہائی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی ایک درخواست کی سماعت کے دوران جمع کرائے گئے ایک تحریری جواب میں یہ انکشاف کیا گیا۔

ڈاکٹر فائزہ حسن کی جمع کرائی گئی پٹیشن کے مطابق پی اے ایف کے حکام نے پچھلے سال نومبر میں ان کے شوہر کو حراست میں لیا تھا۔

اس پٹیشن میں بیان کیا گیا تھا کہ 19 دسمبر کو ڈائریکٹر ایئر انٹیلی جنس ایئر کموڈور عاصم نے درخواست گزار کو مطلع کیا کہ ان کے شوہر زیرِ حراست ہیں، اور انہیں تحقیقات مکمل ہونے کے بعد رہا کردیا جائے گا۔

پٹیشن میں پی اے ایف کے حکام پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے زیرحراست افسر کے ساتھ ان کے خاندان کی ملاقات کا انتظام نہیں کیا۔

پی اے ایف کے جج ایڈوکیٹ جنرل ڈائریکٹوریٹ کے فلائیٹ لیفٹننٹ اسد نے عدالت کو مطلع کیا کہ اسکواڈرن لیڈر حسن اختر جاسوسی کرنے پر حراست میں لیا گیا تھا، اور یہ معاملہ متعلقہ حکام کے پاس اب بھی زیرِ التواء ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ قانونی عمل کے مطابق حراست میں لیا گیا تھا۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل حسنین ابراہیم کاظمی نے عدالت کے سامنے دلیل دیتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار نے عدالت سے حقائق چھپائے تھے۔

انہوں نے کہا کہ مذکورہ افسر کو حراست میں لینے کے بعد پی اے ایف کے حکام نے ان کے خاندان سے ملاقات کا انتظام کیا تھا۔ انہوں نے ایک اس ملاقات سے متعلق ایک دستاویز بھی پیش کی، جس میں زیرحراست افسر کی اہلیہ نے دستخط کیے تھے۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے دعویٰ کیا کہ آئین کے آرٹیکل 199 (3) کے تحت ہائی کورٹ اس درخواست کی سماعت نہیں کرسکتی۔

انہوں نے یہ دعوی بھی کیا کہ پی اے ایف کے حکام زیرحراست افسر کو اس وقت سے ٹریبیونل کے سامنے ہر ہفتے پیش کیا ہے جب سے انہیں حراست میں لیا گیا تھا۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ڈاکٹر فوزیہ کے وکیل ریٹائرڈ کرنل انعام ایڈوکیٹ سے سوال کیا کہ جبکہ آئین کی شق 199 (3) ہائی کورٹ کو مسلح افواج کے اہلکاروں سے متعلق درخواستوں کی سماعت سے روک دیتی ہے، کے باوجود یہ عدالت کس طرح اس معاملے کی سماعت کرسکتی ہے۔

تاہم وکیل نے دلیل دی کہ ہائی کورٹ منصفانہ سماعت کو یقینی بنانے کے لیے مسلح افواج کے اہلکاروں سے متعلق درخواستوں کی سماعت کرسکتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آئین کے آرٹیکل 10-اے کے تحت ہائی کورٹ کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے دائرہ اختیار کے اندر آنے والے ہر ایک شہری کو منصفانہ سماعت کو یقینی بنائے۔

کرنل انعام ایڈوکیٹ نے نشاندہی کی کہ عدالت پی اے ایف حکام کی بدنیتی کا مشاہدہ کرنے کے بعد مذکورہ افسر کی گرفتاری کے خلاف اس معاملے میں فیصلہ دے سکتی ہے۔

ان کے مطابق پی اے ایف حکام نے زیرحراست افسر کے ساتھ ان کے خاندان کے افراد کی ملاقات کا انتظام ان کی اہلیہ کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کیے جانے کے بعد کیا تھا۔

انہوں نے نشاندہی کی ’’پی اے ایف ایکٹ کے تحت مذکورہ افسر کو حراست میں لیے جانے کے 48 گھنٹوں کے بعد چارج شیٹ دی جانی چاہیے تھی، لیکن اب تک ایسی کوئی دستاویز نہیں دی گئی ہے۔‘‘

کرنل انعام ایڈوکیٹ نے کہا کہ مذکورہ افسر کو مبہم الزامات پر پچھلے چھ مہینوں سے قید میں رکھا ہوا ہے۔

انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ اسکواڈرن لیڈر حسن اختر کی حراست کو غیرقانونی قرار دیا جائے اور پی اے ایف کے حکام کو ان کی رہائی کی ہدایت کی جائے۔

تبصرے (1) بند ہیں

niazi Apr 21, 2015 11:54am
hmmm it is a very serious voilence against our air force but all the forces if this officer have done such an act and been caught ...