'ڈھیتی دیواریں': دم توڑتی تہذیبوں کی کہانی

اپ ڈیٹ 06 ستمبر 2017
— بشکریہ ناپا
— بشکریہ ناپا
— بشکریہ ناپا
— بشکریہ ناپا

عالمی کلاسیکی ادب میں روس کے تین ادبی نام ایسے ہیں، جن کی تخلیقات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا، یہ لیو ٹالسٹائی، انتون چیخوف اور میکسم گورکی ہیں۔ ان تینوں کی عالمی اور روسی ادب میں اپنی جداگانہ اہمیت ہے۔ دنیا بھر کی زبانوں میں ان کی تخلیقات کا ترجمہ ہوا۔ لیو ٹالسٹائی کو ناول نگاری کے حوالے سے زیادہ شہرت ملی، اور انتون چیخوف نے افسانے کی صنف میں زیادہ نام کمایا۔ میکسم گورکی کی مقبولیت کی وجہ بھی ناول ہے، لیکن ان کو ایک ڈراما نگار کی حیثیت سے بھی پسند کیا گیا۔

ڈرامے کی صنف پر طبع آزمائی انہوں نے اپنے ہمعصر ادیب اور دوست انتون چیخوف کے کہنے پر کی، اور پھر اس شعبے میں خوب نام کمایا۔

میکسم گورکی — بشکریہ لائبریری آف کانگریس
میکسم گورکی — بشکریہ لائبریری آف کانگریس

پاکستان میں روسی ادب کئی دہائیوں سے ترجمہ کیا جارہا ہے، حتیٰ کہ ہمارے ہاں سعادت حسن منٹو جیسے بڑے ادیب نے بھی روسی ادب کا اردو زبان میں ترجمہ کیا۔ زیادہ تر تخلیقات، جن کا اردو زبان میں ترجمہ ہوا، چاہے وہ روس کا کلاسیکی ادب ہو یا جدید، سب کی ترجیح میں ناول اور افسانہ رہا، مگر جب سے کراچی میں قائم ”نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس“ نے کلاسیکی ادب کو پیش کرنے کی ٹھانی ہے، تو اس میں روس کا کلاسیکی ادب بھی سرفہرست رہا ہے۔

پہلی بار 2009 میں روسی ادیب انتون چیخوف کا کلاسیکی کھیل "سی گل" (Seagull) پیش کیا گیا تھا، جس کو پھر متعدد بار کھیلا گیا اور اب 2015 میں میکسم گورکی کا شہرہ آفاق ڈراما ”ڈھیتی دیواریں“ کی نمائش جاری ہے۔

میکسم گورکی کا لکھا ہوا یہ ڈراما ”ڈھیتی دیواریں“ دو تہذیبوں کے مابین پڑنے والی دراڑ کی کہانی ہے، جس کو مصنف نے انتہائی باریک بینی اور خوبصورتی سے قلم بند کیا۔ اس ڈرامے میں بیسویں صدی کا آغاز دکھایا گیا، جب دنیا بدل رہی تھی، نئی نئی ایجادات آرہی تھیں، اور نئی نسل علم کی تلاش میں اپنے دیہی علاقوں سے نکل کر شہروں کا رخ کررہی تھی۔ ان کی آنکھوں میں کچھ خواب تھے، جن کو وہ ہر قیمت پر حاصل کرنا چاہتے تھے۔

دوسری طرف وہ نسل تھی، جو بوڑھی ہورہی تھی، اور جس نے تمام زندگی تہذیب میں رچ بس کر گزار دی تھی۔ اب وہ اس کی ٹوٹ پھوٹ دیکھ رہے تھے، اور اس شکست و ریخت پر دل گرفتہ تھے۔ ہرچند کہ مصنف کی کہانی کی بنیاد فکشن ہے، مگر اُس وقت کے روس کے حالات اس کہانی سے کچھ مختلف نہ تھے، اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ڈراما نگار نے اس کہانی کے تمام کردار اپنے گرد و پیش سے چُنے اور انہیں اس وقت کے حالات میں رکھ کر لکھا۔

— بشکریہ ناپا
— بشکریہ ناپا

ناپا کے کتابچے میں اس ڈرامے کا تعارف کرواتے ہوئے بہت اچھے انداز میں اس کا خلاصہ لکھا گیا ہے، جو کچھ یوں ہے۔ ”اس کھیل میں وہ تمام پیچ و خم نظر آتے ہیں، جو کسی بدلتے ہوئے معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں۔ ایک متوسط طبقے کا باپ، جو میئر بننے کے خواب دیکھ رہا ہے، لیکن سخت قدامت پسند اور کنجوس ہے۔ اس کی تین اولادیں، ایک بیٹی، ایک بیٹا اور ایک لے پالک بیٹا۔ سب اس کی آمرانہ طبیعت سے نالاں ہیں۔ گورکی نے لے پالک بیٹے کے ذریعے اس نئے آدمی کی شکل دکھانے کی کوشش کی ہے، جو خواب دیکھتا ہے اور اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر معاشرے کو بدلنے کی جدوجہد کرنا چاہتا ہے۔“

گورکی کا کھیل سنجیدہ نوعیت کا تھا، لیکن بہت سے جملے ایسے بھی تھے، جن میں لطیف طنز و مزاح کی ترکیب استعمال کی گئی۔ سنجیدہ نوعیت کے کچھ مکالمے تو بہت ہی عمدہ تھے، جیسے ایک کردار کہتا ہے: ”بہادر بزدل ہوتا ہے اور بدمعاش چالاک“۔ اب یہ جملہ نہیں جگ بیتی ہے، جس کو گورکی جیسے کہنہ مشق ادیب نے ایک جملے میں سمو دیا۔

اردو زبان میں اس شاندار کھیل کا ترجمہ انور عظیم نے کیا، جبکہ تزئین اور سیٹ انجم ایاز اور جاوید یونس نے تخلیق کیا، جو بہت ہی شاندار کلاسیکی ماحول تخلیق کرنے میں کامیاب رہے۔ ہدایات کے فرائض ضیا محی الدین نے انجام دیے، یہی وجہ تھی کہ ڈرامے میں تمام کرداروں کی بول بانٹ اور حرکات و سکنات پر اداکاروں کی مکمل گرفت تھی، اور روسی ادیب کا ڈراما ہونے کے باوجود اردو زبان کی چاشنی اور محاوراتی زبان کا لطف مل رہا تھا۔

ایک اچھے ہدایت کار کی یہی خوبی ہوتی ہے کہ وہ کھیل کو اس کے پورے پس منظر کے ساتھ اپنے ماحول میں پیش کرے، جو کہ کیا بھی گیا۔ اس ڈرامے کے معاون ہدایت کار میثم نقوی تھے۔ ملبوسات اور برقیاتی سہولت کار عظمیٰ سبین نے کی، جبکہ ان کے معاونین ارم بشیر اور پرویز اقبال تھے۔ ساؤنڈ کی سہولت اشرف بھٹی نے دی، جبکہ پروڈکشن مینجر اکبر اسلام تھے۔ ان تمام ہنرمندوں نے مل کر ڈرامے میں رنگ بھر دیا، مگر اداکاروں کے ذکر کے بغیر اس کوشش کی کہانی ادھوری ہے۔

گورکی کا یہ کھیل اردو زبان میں منتقل ہونے کے بعد جب اسٹیج پر دکھایا گیا تو اس کا دورانیہ تقریباً دو گھنٹے تھا۔ ڈرامے کے کل کردار 13 تھے۔ 7 مرکزی کردار تھے، جن میں خالد احمد، نائلہ جعفری، نذرالحسن، پارس مسرور، علی رضوی، میثم نقوی، اور اکبر اسلام تھے، جبکہ معاون کرداروں میں فرحان عالم، کلثوم آفتاب، شبانہ حسن، ارم بشیر، ماہا علی، اور شمائلہ تاج شامل تھیں۔

— بشکریہ ناپا
— بشکریہ ناپا

اس ڈرامے میں جتنے مرکزی کردار ہیں، وہ سب پہلے روسی ڈرامے ”سی گل“ میں بھی کام کر چکے ہیں، اس لیے انہیں اس کہانی کے تقاضوں کے بارے میں علم تھا، جن کو نبھانے کی انہوں نے پوری کوشش کی۔

خالد احمد نے لاجواب اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ ان کے لب و لہجے کے اتار چڑھاؤ نے مکالموں میں جان ڈال دی اور حاضرین کو اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ کسی منجھے ہوئے اداکار کا کام دیکھ رہے ہیں۔

ایک سخت مزاج شوہر، متفکر باپ، اور پرانی نسل کے نمائندے کی حیثیت سے انہوں نے اپنے کردار سے خوب انصاف کیا۔ نائلہ جعفری کی اداکاری میں بہت زیادہ مثبت تبدیلی دیکھنے کو ملی، اورانہوں نے جم کر اپنا کردار نبھایا، جس سے یہ اندازہ بالکل بھی نہیں ہوا کہ وہ صرف ٹیلی ویژن اسکرین کی اداکارہ ہیں۔ انہوں نے ایک حسین اور دلکش بیوہ کے کردار میں اپنی مہارت سے شاندار رنگ بھرے۔ نذرالحسن نے ایک روایتی موسیقار کے طور پر اپنے ہونے کا خوب احساس دلایا اور اپنے روایتی اعتماد کے ساتھ مکالموں کو خوب ٹھونک بجا کر ادا کیا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ضیا محی الدین جیسے صداکار کے شاگرد ہیں۔

میثم نقوی نے بھی بہت عمدہ طریقے سے کردار کو نبھایا، سنجیدگی اور مزاح کے امتزاج کو ایک ہی کردار میں ادا کرتے ہوئے انہوں نے اپنے مکالموں پر گرفت ڈھیلی نہیں ہونے دی، اسی لیے ان کے کردار نے پورے کھیل میں لطف دیا۔ پارس مسرور اور علی رضوی نے ناپا کی ابتدائی پروڈکشنز میں ایک ساتھ بہت کام کیا ہے۔ ناپا سے فارغ التحصیل ہونے والے طالب علموں میں بھی یہ دونوں ساتھ تھے اور ایک طویل وقفے کے بعد پھر ایک ساتھ اس کھیل میں وارد ہوئے۔

ان دونوں نے گزرتے وقت کے ساتھ اپنی کردار سازی پر بہت زیادہ کام کیا ہے، جس کی وجہ سے یہ اب نئی نسل کے منجھے ہوئے اداکار بن چکے ہیں، جس کا مظاہرہ انہوں نے حالیہ کھیل میں بھی کیا۔ اکبر اسلام بھی ناپا کے ہونہار سپوت ہیں، اور مختصر کردار کے باوجود انہوں نے اپنے ہونے کا بھرپور احساس دلایا۔

مجموعی طورپر یہ کھیل بہت عمدہ کھیلا گیا، البتہ کچھ معمولی چیزوں کی کمی محسوس ہوئی، جیسے موسیقار والے کردار کے تناظر میں اسٹیج پر پیانو بھی دکھایا گیا، لیکن موسیقی اس تناسب سے شامل نہیں کی گئی۔ کچھ ٹکڑے بجائے گئے، مگر وہ نہ ہونے کے برابر تھے۔ اسی طرح معاون اداکاروں کی جسمانی حرکات و سکنات میں ذرا اعتماد کی کمی تھی، مگر امید ہے کہ دھیرے دھیرے وہ بھی دیگر اداکاروں کی طرح اعتماد حاصل کر لیں گے۔

— بشکریہ ناپا
— بشکریہ ناپا

کھیل دو حصوں میں تقسیم تھا۔ پہلے حصے میں جب اس کا آغاز ہوتا ہے تو دکھایا گیا کہ بجلی نہیں ہے، لیکن بجلی آجانے کے بعد بھی چراغ دان کافی دیر تک روشن رہے۔ اس طرح کی تکنیکی غلطیاں آسانی سے پکڑ میں نہیں آتیں، اور ان کے لیے باریک بینی درکار ہوتی ہے۔ لیکن جب مجموعی حیثیت میں کھیل اچھا کھیلا جارہا ہو، تو یہ کوشش ہونی چاہیے کہ ایسی غلطیاں بھی نہ کی جائیں۔

اسی طرح کچھ سینئر اور جونیئر اداکار کہیں کہیں اپنے مکالموں میں اٹکے۔ اس طرح کی بھول چوک سے مکالمے کا حسن خراب ہو جاتا ہے، اور حاضرین کی توجہ بھی تقسیم ہوتی ہے، اس لیے ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔

مجموعی طور پر کھیل اچھا تاثر چھوڑنے، اور میکسم گورکی سے انصاف کرنے میں کامیاب رہا، اور نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کی پوری انتظامیہ اس کامیاب کھیل کو پیش کرنے پر مبارک باد کی مستحق ہے۔ ناپا کے آنے والے کھیلوں میں امراؤ جان ادا، بابا جعلی نُوس، اور شوہروں کا مدرسہ ہوں گے۔ امید ہے کہ ان کھیلوں میں بھی ناپا اپنے اعلیٰ معیار کو قائم رکھتے ہوئے حاضرین کے لیے بہترین تفریحِ طبع کا سامان مہیا کرے گی۔


اس مضمون کا عنوان ابتدائی طور پر "ڈھتی دیواریں" لکھا گیا تھا، جبکہ درحقیقت یہ "ڈھیتی دیواریں" ہے۔ تصحیح کر دی گئی ہے، اور ادارہ غلطی کے لیے معذرت خواہ ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (4) بند ہیں

Waseem May 19, 2015 03:31pm
آپ نے سب چیزوں پر خوب تبصرہ کیا اگر یاد نہیں رہا تو کھیل کا نام۔ ڈھیتی دیواریں ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۱۔ ڈھینا اردو میں کبھی اکیلا استعمال نہیں ہوتا ہمیشہ کسی دوسرے فعل کے ساتھ مل کر آتا ہے جیسے ڈھے گیا، ڈھے پڑا، اور اس میں تکمیل کا عنصر پایا جاتا ہے پروگریشن کا نہیں۔ مجھے حیرت ہے کہ انور عظیم صاحب نے اس کا سیدھا سیدھا ترجمہ " گرتی ہوئی دیواریں" کیوں نہیں کیا۔ ۲۔ خفا سے خفگی ، خستہ سے خستگی ، پیوستہ سے پیوستگی ، شکستہ سے شکستگی ، وارفتہ سے وافتگی ، وارستہ سے وارستگی ، واسوختہ سے واسوختگی ، بے ساختہ سے بے ساختگی سب سنا ہے لیکن ڈھینا سے اسم کیفیت ڈھیتی بھی کچھ عجیب لگتا ہے، اگر کوئی صاحب علم اس وزن پر فعل سے اسم کیفیت بننے کی مثال دے سکیں تو مشکور ہوں گا۔
نجیب احمد سنگھیڑہ May 19, 2015 08:29pm
محترم وسیم صاحب نے ڈھیتی دیواریں عنوان یا سرناواں رکھنے پر اہم سوال اٹھایا ہے کہ آخر یہ عنوان اتنی ٹون کیوں نہیں دیتا، زبان پر ٹھہرتا کیوں نہیں۔ راقم نے ڈھیتی دیواریں اور محترم وسیم صاحب کے تجویز کردہ عنوان گرتی ہوئی دیواریں پر غور کے بعد جو لب لباب نکالا ہے وہ یہ ہے کہ گرتی ہوئی دیواروں کو ایک اور دھکا دو ایک عام جملہ ہے جو اپوزیشن زیادہ تر استعمال کرتی ہے۔ اس کے علاوہ گرتی ہوئی دیواریں سے عمومآ دیواریں ہی ہوتا ہے جو سیمنٹ اور اینٹ گارے سے بنی ہوتی ہیں۔ جبکہ ڈھیتی لفظ پنجابی زبان کا ہے جس کا معنی غروب ہونا، بےبس ہو جانا، ہمت ہار جانا ۔۔۔۔۔۔ ہے۔ ڈھیتی دیواریں لفظ انور عظیم صاحب نے غالبآ اس سوچ کے ساتھ چُنا ہے کہ اس سے مراد خاندان، انسان، نسل کا غروب ہو جانا، ہمت ہار جانا، بے بس ہو جانا ہے۔ گرتی ہوئی دیواریں عنوان بیشمار منظر پر آ چکے ہیں، اس لیے جدت پیدا کرنے کے لیے ڈھتی دیواریں نام رکھا گیا ہو گا۔ ہو سکتا ہے انور عظیم صاحب کی ماں بولی بھی میری ماں بولی یعنی پنجابی ہی ہو، اس لیے انہوں نے پنجابی کو اردو کے برابر لانے کی کوشش کی ہو۔۔۔ ماشاآللہ !
paras masroor May 19, 2015 11:56pm
bohot umda Khurram Sohail
یمین الاسلام زبیری May 20, 2015 04:50am
@نجیب احمد سنگھیڑہ : جناب وسیم صاحب کے اعتراضات درست ہی نہیں بلکہ ہم سب کے اردو سیکھنے کے لیے ضروری بھی ہیں۔ جہاں تک پنجابی والی بات ہے تو ایک تو مضمون پنجابی میں نہیں ہے، دوسرے غروب ہوتی ہوئی دیواریں۔۔۔۔۔ کچھ عجیب سا نہیں ہے؟ ایک بات اور یہ ہے کہ آپ نے 'ماں بولی' لکھا ہے میرا خیال ہے کہ یہ بھی پنجابی ہی ہے، اردو میں 'مادری زبان' کہتے ہیں۔