عربی، فارسی اور مقامی زبانوں کی تعلیم کی سفارش

اپ ڈیٹ 29 مئ 2015
اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی۔ —. فائل فوٹو آن لائن
اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی۔ —. فائل فوٹو آن لائن

اسلام آباد: اسلامی نظریاتی کونسل نے سفارش کی ہے کہ اسکول کی تعلیم کا آغاز مقامی زبان میں بچوں کی سات سال کی عمر سے کردینا چاہیے۔

کونسل نے اپنی سفارشات میں یہ بھی کہا کہ بچوں کو عربی زبان بھی سکھائی جائے تاکہ وہ قرآن پاک کے بعض ابواب کے حقیقی مفہوم سے آشنا ہوسکیں۔

پرائمری تعلیم پر اسلامی نظریاتی کونسل کے زیراہتمام منعقد ہ ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی نے یہ سفارشات پڑھ کر سنائیں، جس میں دوسری چیزوں کے ساتھ یہ بھی شامل تھا کہ پرائمری تعلیم میں اسلام کے بنیادی اصول، قرآن پاک، حدیث، فقہ اور مسلمانوں کی تاریخ جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد کے ساتھ شامل کی جانی چاہیے۔

مولانا شیرانی نے کہا ’’ہم نے فارسی اور عربی زبانیں سکھانے کی تجویز دی ہے، اس کے ساتھ ساتھ طالبعلم اردو اور مقامی زبانوں پر دسترس حاصل کرسکتے ہیں۔‘‘

اسلامی نظریاتی کونسل کے سیمینار میں پانچویں جماعت تک پرائمری تعلیم پر غور کیا گیا۔ شرکاء نے 38 سفارشات کو حتمی صورت دی، جن میں سے ساتویں نمبر کی سفارش نصاب میں تبدیلی کی نو تجاویز پر مشتمل تھی۔

ان تجاویز میں کہا گیا تھا کہ پانچویں جماعت تک کے طلباء کو قرآن پاک سے کہانیاں، برصغیر میں تحریکِ آزادی کی تاریخ، انسانی حقوق اور اس کے حوالے سے انفرادی ذمہ داریاں، تجربات اور تنقیدی سوچ کی صورت میں سائنس اور کردار کی تعمیر کے بارے میں پڑھانا چاہیے۔

ان سفارشات میں یہ تجویز بھی دی گئی کہ نصاب میں ریاضی کے اندر زکوٰۃ اور وراثت کے ساتھ ساتھ دیگر موضوعات میں اسلامی تاریخ سے مثالیں شامل کی جانی چاہیے۔

انہوں نے طلباء کی جسمانی نشونما پر توجہ مرکوز کرنے کی تجویز بھی دی، اور کہا کہ مذہبی مدرسوں کی تعلیم کو اسکولوں کے نصاب کے ساتھ منسلک کیا جانا چاہیے۔

ان سفارشات میں یہ تجویز بھی دی گئی کہ اگر پورے ملک یا صوبے کا ممکن نہ ہو تو کم از کم ایک شہر کے تمام اسکولوں میں یکساں یونیفارم ہونا چاہیے۔

اس سیمینار میں سینئر ماہرِ تعلیم، ریٹائرڈ سرکاری افسران اور مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے مذہبی علماء نے شرکت کی۔

مخلوط تعلیم کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں مولانا شیرانی نے کہا کہ طالبعلموں کی شعوری پختگی کے بعد ان کی مخلوط تعلیم کو جاری رکھنا اچھا خیال نہیں ہے۔


’خلع‘ کی تعریف


سیمینار کے بعد مولانا شیرانی اسلامی نظریاتی کونسل کے بدھ کے روز منعقدہ اجلاس کے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’خلع‘ کی اصطلاح کا عام مفہوم کہ یہ عورت کی جانب سے علیحدگی کی کوشش ہے، غلط ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’’خلع ایک عورت اور اس کے شوہر کے درمیان ایک معاہدہ ہے، جو بیوی کی جانب سے علیحدگی کی خواہش پر کیا جاتا ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ اسلام کے تحت شوہر اپنی بیوی کو طلاق دے سکتا ہے، لیکن اگر ایک عورت اپنی شادی کو ختم کرنا چاہتی ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ ایک معاہدہ کرلے، جسے خلع کہا جاتا ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ خلع کے انتظام کو عام طور پر کچھ لو اور دو کے ذریعے تشریح کی جاتی ہے۔

اگر شوہر بیوی کو ازدواجی بندھن سے آزاد کرنا چاہتا ہے تو بیوی عام طور پر رقم یا جائیداد کا مطالبہ کرتی ہے۔

’’تاہم اگر شوہر عورت کو ازدواجی بندھن سے آزاد کرنے کے لیے تیار نہ ہو تو وہ علیحدگی کے لیے عدالت یا ثالثی کی کونسل سے رجوع کرتی ہے، اس معاملے میں ’فسخ نکاح‘ کی اصطلاح لاگو ہوتی ہے، خلع کی نہیں۔‘‘

تبصرے (1) بند ہیں

Ashiam Ali Malik May 29, 2015 04:00pm
very funny ! . Arabic & Persian for what ?