انڈیا سے کھیلنے کے لیے اتنی بیتابی کیوں؟

اپ ڈیٹ 04 اگست 2015
ہندوستان نے آہستہ آہستہ آئی سی سی میں اپنے قدم مضبوط کیے ہیں جس کی بدولت اب وہ انتہائی اہم پوزیشن پر قابض ہو چکا ہے۔ — AFP
ہندوستان نے آہستہ آہستہ آئی سی سی میں اپنے قدم مضبوط کیے ہیں جس کی بدولت اب وہ انتہائی اہم پوزیشن پر قابض ہو چکا ہے۔ — AFP

حال ہی میں پی سی بی ک ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین نجم سیٹھی کا بیان سامنے آیا ہے کہ وہ اب بھی انڈو۔پاک کرکٹ سیریز کے لیے پر اُمید ہیں۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہماری کرکٹ کی ٹاپ مینیجمنٹ اس بات پر بضد کیوں ہے کہ ہماری کرکٹ کی بھلائی اسی میں ہے کہ ہم ہندوستان سے کرکٹ کے تعلقات دوبارہ استوار کریں، حالانکہ دوسری جانب (ہندوستان) سے ہمیں مسلسل سرخ جھنڈی دکھنے کو مل رہی ہے کیونکہ کرکٹ سے زیادہ انہیں اپنی سیکیورٹی عزیز ہے۔ بات تو ان کی بھی ٹھیک ہے کہ کرکٹ تب ہی ممکن ہے جب ملک میں امن و امان ہو اور ہر کھلاڑی اپنے تحفظ کے بجائے صرف اور صرف اپنے کھیل پر توجہ دے سکے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ ہمیشہ ہندوستان سے کھلینے کو اتنی اہمیت کیوں دیتا ہے جب کہ انہیں پتہ بھی ہے کہ بی سی سی آئی انہیں بہت بار اسی قسم کا ٹکا سا جواب دے چکا ہے۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کو کرکٹ کی دنیا میں ہندوستان کے اثرو رسوخ کا اچھی طرح اندازہ ہے۔ ہندوستان نے آہستہ آہستہ آئی سی سی میں اپنے قدم مضبوط کیے ہیں جس کی بدولت اب وہ انتہائی اہم پوزیشن پر قابض ہو چکا ہے۔ دوسری جانب ہندوستان کے مضبوط مالیت ادارے کرکٹ کے فروغ میں بھرپور حصہ لیتے ہیں اور اب آئی سی سی کے سارے بڑے ایونٹس کو ہندوستان کی بڑی بڑی کمپنیاں اسپانسر کرتی ہیں۔ اس سے نہ صرف آئی سی سی ہندوستان کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہے، بلکہ نہ چاہتے ہوئے بھی بی سی سی آئی کی بہت سی باتوں کو من و عن قبول کرتی ہے۔

پڑھیے: پاک و ہند کرکٹ، آخر کب؟

تیسری بات جو نہایت اہم ہے، وہ یہ کہ پاکستان کی کرکٹ مینیجمنٹ چاہتی ہے کہ کسی طرح پاکستان کے کھلاڑیوں کو بھی آئی پی ایل میں کھیلنے کا موقع مل جائے، اور یہ موقع ملنا تب ہی ممکن ہے جب دونوں ملکوں کے درمیان دو طرفہ کرکٹ دوبارہ بحال ہوگی۔

آئی پی ایل ٹی ٹوئنٹی میں دنیائے کرکٹ کے تمام بڑے بڑے کھلاڑی حصہ لیتے ہیں جو کہ سیکھنے کے حوالے سے بہت ہی اچھی بات ہے۔ اس دوران تمام وہ کھلاڑی جو ویسے تو اپنے اپنے ملکوں کی نمائندگی کرتے ہیں، اکٹھے کسی اور ٹیم میں کھیلتے ہیں۔ اس طرح ہر کھلاڑی اپنے تجربات کا دوسروں سے تبادلہ کرتا ہے، اور اپنی ترکیبیں دوسرے کو سمجھاتا ہے جس سے دوسرے کھلاڑی کے کھیل پر بہت اچھے اثرات پڑتے ہیں۔

آئی پی ایل میں حصہ لینے کے حوالے سے پاکستان کے سوئنگ کے سلطان وسیم اکرم بھی یہ بات بہت بار کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کے کھلاڑیوں کے لیے آئی پی ایل میں کھیلنا بہت ضروری ہے کیونکہ وہ ایک بہت اچھا پلیٹ فارم ہے جو ہر کھلاڑی کو اپنی صلاحیتیں دکھانے کا بھرپور موقع فراہم کرتا ہے۔

میری رائے میں اوپر کی گئی ساری باتیں نہ صرف اہم ہیں بلکہ ایک طرح سے ہمارے لیے یہ ایک نیا چیلنج بھی ہے۔ ہمیں نہ صرف ان سب باتوں پر غور کرنا چاہیے بلکہ بڑے تحمل سے ان سب باتوں کے متبادل بھی ڈھونڈنے چاہیئں۔

ان حالات میں ہمیں کرنا یہ ہے کہ سب سے پہلے تو آئی سی سی میں اپنا اثر و رسوخ بڑھائیں۔ اس ضمن میں ایک بات تو بہت خوش آئند ہے کہ ہمارے ملک کے لیجنڈری بلے باز ظہیر عباس آج کل آئی سی سی میں صدر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ پی سی بی کو یہ بات یقینی بنانی چاہیے کہ ظہیر عباس پاکستان کا مؤقف آئی سی سی میں صحیح انداز سے پیش کریں۔

مزید پڑھیے: پی سی بی کی 'ہندوستان نواز' پالیسی پر تنقید

آئی سی سی میں کرکٹ کے حوالے سے بہت سے مسائل باقاعدگی سے زیر بحث رہتے ہیں۔ ان مسائل میں ہر کرکٹ کھیلنے والے ملک کا کرکٹ کا بجٹ اور کھیل کو فروغ دینے کے لیے مخصوص فنڈز کی صاف شفاف تقسیم زیادہ اہم ہیں۔ ظہیر عباس کو کرنا یہ ہے کہ جہاں پاکستان کا جائز موقف نظر آئے، وہ اسے اچھی طرح سنائیں، سمجھائیں اور آگے چیئرمین تک پہنچائیں، تاکہ جہاں تک ممکن ہو ہمارے ملک کے کرکٹ کو فائدہ ہو۔ ایک اور پہلو بھی اہم ہو سکتا ہے جس میں ظہیر عباس کرکٹ کھیلنے والے ممالک سے اچھے تعلقات استوار کر کے پاکستان کی اہمیت کو اجاگر کر سکتے ہیں۔

اوپر بیان کیے گئے دوسرے مسئلے، جس میں ہندوستان کی آئی سی سی کے اندر مالیاتی حصہ داری پر بات کی گئی ہے، کو بھی احسن طریقے سے حل کیا جا سکتا ہے۔ پہلے مرحلے پر پی سی بی کو چاہیے کہ ملک کے بڑے بڑے اداروں اور کاروباری شخصیات سے ملاقاتیں کریں اور کسی طرح انہیں اس بات پر متفق کریں کہ انہیں آئی سی سی کے سالانہ ایونٹس میں بھی سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ بنیادی طورپر کسی بھی کھیل کو اسپانسر کرنا دراصل اس کمپنی یا برانڈ کی سرمایہ کاری ہی ہوتی ہے، جس سے اسپانسر کرنے والی کمپنی کا برانڈ نام اجاگر ہوتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس کھیل کو بھی مزید فروغ ملتا ہے۔

دوسرے مرحلے پر پی سی بی کو چاہیے کہ وہ ظہیر عباس کے توسط سے آئی سی سی میں اپنا مؤقف سامنے لائے کہ وہ بھی آئی سی سی کے ایونٹس کو اسپانسر کرنا چاہتے ہیں۔ شروعات میں اگر دو تین کمپنیوں کو ہی موقع مل جاتا ہے تو یہ پی سی بی اور پاکستان کی کرکٹ کے لیے بہت مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

چلیں اب تیسری جانب آتے ہیں، کہ ہمارے کھلاڑی آئی پی ایل میں نہیں کھیل پا رہے۔ اس بات سے ہم انکار نہیں کر رہے کہ آئی پی ایل واقعی بہت اچھا پلیٹ فارم ہے، جس میں تمام کھلاڑیوں کا کھیل نکھر کر سامنے آتا ہے، لیکن اگر حالات اس بات کی اجازت نہیں دے پا رہے، اور ہندوستان نے جان بوجھ کر پاکستان کے کھلاڑیوں پر آئی پی ایل کے دروازے بند کر رکھے ہیں، تو اس صورت میں ہمیں کرنا یہ ہے کہ اپنا ڈومیسٹک کرکٹ سرکٹ بہتر کریں اور اپنے ملک کے اندر چھوٹے چھوٹے ایونٹس کروا کر کھلاڑیوں کے کھیل کو اور پختہ کریں۔ ایسی پچز تیار کی جائیں جو بلے بازوں اور باؤلرز دونوں کے لیے مفید ہوں تاکہ وہ مشکل حالات میں بھی اپنی صلاحیتوں کو منوا سکیں۔

آئی پی ایل نہ سہی لیکن بہت سے اور ممالک میں بھی آج کل ٹی ٹوئنٹی لیگز ہو رہی ہیں۔ پی سی بی کو چاہیے کہ وہ اپنے کھلاڑیوں کو ان ممالک میں ہونے والی لیگز میں کھیلنے کے لیے ان کی بھرپور حوصلہ افزائی کریں۔

جانیے: عرفان کا آئی پی ایل پر راج ہوتا

اس بات کی گواہ تو ساری دنیا ہے کہ ہمارے ملک میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں، بس تھوڑی سی رہنمائی ہوتی رہے تو ہمارے کھلاڑی ہر میدان میں جیت کر آئیں۔ حال ہی میں ختم ہونے والی کیریبین پریمیئر لیگ میں ہمارے ملک کے مایہ ناز وکٹ کیپر بیٹسمن کامران اکمل نے انتہائی عمدہ کارکردگی دکھائی جس کی بدولت ان کی ٹیم ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوباگو ریڈ سٹیل پہلی سی پی ایل جیتنے میں کامیاب ہوئی۔ انہیں فائنل میں مین آف دی میچ کا ایوارڈ بھی ملا۔ نہ صرف کیریبین لیگ، بلکہ پاکستان کے کھلاڑیوں نے سری لنکا، بنگلہ دیش، آسٹریلیا اور انگلینڈ میں ہونے والی ٹی ٹوئنٹی لیگ میں بھی ہمیشہ اچھی کارکردگی دکھائی ہے۔

بات صرف عزم کی ہے۔ پی سی بی اگر اب بھی صحیح سمت پر گامزن ہو جائے تو میرا یہ ایمان ہے کہ پاکستان کرکٹ کی کھوئی ہوئی ساکھ دنیا بھر میں دوبارہ بحال ہوسکتی ہے، اور پاکستان ایک بار پھر بین الاقوامی میچز کا میزبان بن سکتا ہے۔

تبصرے (3) بند ہیں

Saeed Mashaal Bhatti Aug 03, 2015 05:08pm
if we see the international ranking we are topping India in ICC test cricket and T20 as well, they are exceeding us in ICC ODI only in this case we have far better other teams if we want our boys to get more exposure and competition of cricket. But here something is else like where there is muck there is mass situation. PCB needs to take a break and think profoundly before their official open their mouths as they are representatives of almost 20 kror people rather sole beneficiary of their own pockets. We need to pay back in the same coin then u would see the attitude of India would be friendly rather ignoring the cricket of neighbors.
Mamoon Aug 03, 2015 10:23pm
A very thoughtful and well articulated piece! PCB high-ups can take cue from the very workable suggestions pointed out here.
Ali Aug 04, 2015 03:43am
There are other team beside India. If india is not interested than leave them alone and play with other counties. you can't make fun of whole nation by begging a cricket series with them. When the time will be right, Indian will request this series by themselves. Until than PCB should not degrade the whole nation. Enough said.