پاک و ہند کرکٹ، آخر کب؟

03 مئ 2014
ثقلین مشتاق کی دوسرا پر وسیم اکرم نے ٹنڈولکر کا کیچ تھاما اور مزید دو وکٹیں لیکر پاکستان کو یادگار فتح سے ہمکنار کرایا۔
ثقلین مشتاق کی دوسرا پر وسیم اکرم نے ٹنڈولکر کا کیچ تھاما اور مزید دو وکٹیں لیکر پاکستان کو یادگار فتح سے ہمکنار کرایا۔

مدراس (چنئی) کا ایم اے چدم برم اسٹیڈیم اپنے جوبن پر تھا، 1999ء کا موسم سرما اور ہندوستان اپنے عظیم بیٹسمین سچن ٹنڈولکر کی سنچری کی بدولت فتح کی جانب باآسانی گامزن۔ اچانک ثقلین مشتاق کا 'دوسرا' گیند سچن کے بلے کا اوپری کنارہ لیتے ہوئے فضا میں بلند ہوا اور پاکستان کے کپتان وسیم اکرم نے کیچ تھام کر نہ صرف ان کی پیشرفت کا خاتمہ کردیا بلکہ 'ثقی' نے اس کے بعد آخری دونوں کھلاڑیوں کو آؤٹ کرکے پاکستان کواپنی تاریخ کی یادگار ترین فتح سے بھی ہمکنار کردیا۔

یہ سب کچھ اتنا آناً فاناً ہوا کہ میدان میں موجود کسی تماشائی کو یقین نہیں آ یا۔ جہاں کچھ دیر قبل کان پڑی آواز نہ سنائی دیتی تھی، اب سناٹے کا راج تھا۔ پھر چشم فلک نے ایک عجیب منظر دیکھا، میدان کے ایک حصے سے تالیاں بلند ہونا شروع ہوئیں اور چند ہی لمحوں میں سب تماشائی اپنی نشستوں پر کھڑے ہوکر اور ہاتھ اٹھا کر پاکستان کے لیے تالیاں بجانے شروع ہوگئے۔

اس منظر کا تصور کیجیے، ایک ایسا مقابلہ جو پاکستان مخالف شدت پسندوں کی جانب سے فیروز شاہ کوٹلہ اسٹیڈیم کی پچ اکھاڑنے کی وجہ سے دہلی سے چنئی منتقل ہوا ہو، اس میں پاکستان کے جیتنے پر ہزاروں ہندوستانی تماشائی ہاتھ اٹھا کر داد دے رہے ہوں۔

پاکستان کی ٹیم بھی خوشگوار حیرت میں مبتلا تھی اور پھر داد سے حوصلہ پاتے ہوئے میدان کا فاتحانہ چکر لگانے کے لیے آمادہ نظر آئی۔ پھر 'وکٹری لیپ' کے ساتھ جنوری کی آخری شام کا اختتام یادگار انداز میں ہوا۔

پانچ سال بیت گئے، 2004ء میں ہندوستان عرصہ دراز کے بعد پاکستان کے دورے پر آیا اور کراچی میں پہلے ایک روزہ مقابلے کے ساتھ اس سیریز کا شایان شان آغاز ہوا۔ پل میں تولہ اور پل میں ماشہ کی صورت اختیار کرنے والا یہ مقابلہ صرف 5 رنز سے ہندوستان کی فتح پر منتج ہوا۔

معین خان آخری گیند پر درکار چھ رنز نہ بنا پائے اور گو کہ اختتام پاکستان کے لیے مایوس کن تھا لیکن کراچی کے تماشائیوں کو چنئی سے آنے والا محبت بھرا پیغام یاد تھا۔ نیشنل اسٹیڈیم میں موجود کراچی کے ہزاروں باسی کھڑے ہوئے اور تالیوں کی گونج میں فاتح ہندوستانی کھلاڑیوں کو میدان سے رخصت کیا۔

کیا اس طرز عمل کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ کرکٹ کے میدانوں میں دونوں ممالک کے درمیان کوئی رقابت ہے؟ نہیں، یہ مشترکہ اقدار میں سے ایک "کرکٹ" سے دلی لگاؤ اور ایک دوسرے کے قریب آنے کی خواہش ہے کہ جو عوام میں رچی بسی ہے۔ باوجود اس کے پاک و ہند باہمی کرکٹ تعلقات دونوں ممالک کے کرتا دھرتاؤں کی ترجیحات میں آج بھی شامل نہیں۔

پاک و ہند مقابلے کبھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوتے، چاہے معاملہ انڈر19 سطح ہی کا کیوں نہ ہو۔ طویل تاریخ اور روایات کے باوجود آسٹریلیا-انگلینڈ میچ بھی جذبات و احساسات کی اس نہج تک نہیں پہنچتے، جس حد تک پاک و ہند مقابلے جاتے ہیں۔

آخر کوئی کیسے لکھنؤ 1954ء، بنگلور 1988ء، موہالی 1999ء، چنئی 1999ء، ملتان 2004ء اور بنگلور 2005ء کے ٹیسٹ مقابلے بھول سکتا ہے؟۔

لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب چراغوں میں روشنی نہیں رہی۔ 2008ء میں ممبئی دہشت گرد حملہ کچے دھاگے میں بندھے پاک و ہند تعلقات کو توڑ گیا۔ اپنی سیاسی دکانیں چمکانے اور مذموم مقاصد کے حصول کے لیے کوشاں سیاست دانوں کی چاندی ہے جو گزشتہ کئی سالوں سے پاک و ہند کرکٹ تعلقات کے خاتمے کا بنیادی سبب ہے۔

رہی سہی کسر 2009ء میں لاہور میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر دہشت گردوں کے حملے نے پوری کی۔ یوں ان دو واقعات سے ہندوستانی تماشائی پاکستانیوں کو اور پاکستانی تماشائی اپنے ہی کھلاڑیوں کو میدانوں پر کھیلتا دیکھنے سے محروم ہیں۔

سال 2012ء کے آخری دنوں میں کچھ برف پگھلی۔ پاکستان محدود اوورز کی ایک مختصر سیریز کھیلنے کے لیے دورۂ ہندوستان پر گیا۔ امکانات بڑھ چلے کہ اب شاید قدم آگے کی سمت بڑھیں لیکن افسوس کہ اب تک کوئی مستحکم پیشرفت نہیں دکھائی دیتی۔

'بگ تھری' تجاویز کو تسلیم کرنے پر غالباً زبانی کلامی وعدے کیے گئے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ آخر سرحد کے دونوں جانب کے عوام کی دلی تمنائیں کب بر آتی ہیں اور پاکستان و ہندوستان کی ٹیمیں آمنے سامنے آتی ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں