پشاور:خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے ماحولیات اور سینیٹری نظام کے لیے خطرناک سمجھے جانے والے پولیتھین شاپنگ تھیلیوں کی صوبے بھر میں تیاری اور استعمال پر پابندی عائد کر دی۔

پیر کو جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق، اس پابندی کا اطلاق دو مہینے بعد کیا جائے گا جبکہ اس دوران بازاروں اور فیکٹریوں سے پلاسٹک تھیلیوں کے سٹاک ختم کیے جائیں گے۔

بیان میں بتایا گیا کہ وزیر اعلیٰ نے یہ پابندی میں ایک وفد سے ملاقات کے بعد لگائی۔

صوبائی وزیر اطلاعات مشتاق احمد غنی نے ڈان کو بتایا کہ پلاسٹک تھیلیوں کا استعمال روکنے کیلئے صوبے میں بھرپور آگائی مہم چلائی جائے گی۔

’میڈیا اور دوسرے ذرائع کی مدد سے چلائی جانے والی اس آگاہی مہم کے دوران، لوگوں کو متعلقہ قوانین اور اس کی خلاف ورزی پر سزاوں کے بارے میں بتایا جائے گا‘۔

جب غنی سے پلاسٹک تھیلیوں کا متبادل پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ عوام میں کاغذی تھیلیاں استعمال کرنے کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔

’دراصل، کاغذی تھیلیاں ماحول دوست ہیں کیونکہ یہ چھ مہینے بعد خود بخود تحلیل ہو جاتی ہیں‘۔

ایک ماہر ماحولیات کے مطابق، پولیتھین تھیلیوں کا استعمال ہرگز نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ ماحول کیلئے مضر ہیں۔ تاہم، ان تھیلیوں کا اچانک استعمال روکنا بھی ممکن نہیں۔

انہوں نے مشورہ دیا کہ صوبے میں پلاسٹک تھیلیوں کا استعمال ترک کرنے کے رواج کو فروغ دینا چاہیئے۔ انہوں نے بتایا کہ کئی ملکوں میں سالوں سے کاغذ اور کپڑے کے بنے تھیلوں کا استعمال عام ہے۔

خیا ل رہے کہ صوبے کی مقامی حکومت اور دیہی ترقیاتی محکمہ نے ڈیڑھ سال قبل اسی طرح کی ایک مہم چلائی جسے کوئی پذیرائی نہیں مل سکی۔

محکمہ نے پشاور کے یونیورسٹی ٹاون علاقے میں انسداد پلاسٹک بیگز مہم چلاتے ہوئے دکان داروں کو ایسی تھیلیاں استعمال کرنے سے روکا تھا۔تاہم، حکومت کی عدم دلچسپی اور کچھ متعلقہ افسروں کے تبادلے کی وجہ سے مہم ناکام رہی۔

ایک قانونی ماہر اور متعلقہ سرکاری افسر نے بتایا کہ فی الحال پلاسٹک تھیلیوں کے استعمال پر پابندی کے لیے کوئی قانون موجود نہیں۔تاہم، وفاق میں اس طرح کا ایک قانون موجود ہے۔

انہو ں نے بتایا کہ اگر صوبائی حکومت حقیقتاً پلاسٹ تھیلیوں پر پابندی چاہتی ہے تو اسے قانون سازی کا سہارا لینا ہو گا۔

بلدیاتی حکومتوں کے ایک ماہر نے بتایا کہ صوبائی حکومت کو ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے پلاسٹ تھیلیوں کو تیاری، تشہیر اور استعمال کو جرم قرار دینا ہو گا۔

تبصرے (2) بند ہیں

nasreen Aug 04, 2015 09:23am
Imran Khan's wife may have suggested this because she is trying to copying Michelle Obama. Did the family think that how many people will be out of business and work. How many children will be sleeping hungry because their father lost his job. They have to think that what is going to happen with the factory owners and the people(labors) they are working in the the plastic factories?
Muhammad Ayub Khan Aug 04, 2015 11:59am
@nasreen you insist that people should die or hospitalised in general for a minority that is less than 0.00001%? Please do not do this type of propaganda. Do not strenghthen people who are our enemies of environment.