آدھی بیوائیں

05 فروری 2016
اپنے پیاروں کی گمشدگی کے خلاف احتجاجی مظاہرے میں ایک کشمیری عورت رو رہی ہے۔ — رائٹرز/فائل۔
اپنے پیاروں کی گمشدگی کے خلاف احتجاجی مظاہرے میں ایک کشمیری عورت رو رہی ہے۔ — رائٹرز/فائل۔

کہا جاتا ہے کہ وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ، اور اگر دل سے پوچھا جائے تو یہی سچ ہے۔ یقینی طور پر اس کائنات میں رنگینیوں کا سبب اسی وجود سے ہے۔ محبتوں سے گندھے اس وجود سے ہر رشتہ بے مثال ہے، ماں کا روپ ہو تو جنت بن جائے، بہن کا روپ ہو تو دعا کی شکل اختیار کر لے، ہمدردی کی تلاش ہو تو اس سے بہتر کون ساتھی ہو اور اگر یہ وجود ناز اٹھوائے تو بیٹی کہلائے۔ بجا طور پر کائنات کی رونقیں اس سے وابستہ ہیں۔

لیکن روئے زمین پر ایک خطہ ایسا بھی ہے جہاں 68 برس سے یہ تخلیق مظلومیت کا نشان بنی ہوئی ہے۔ جی ہاں بات ہو رہی ہے مقبوضہ کشمیر کی، جہاں ہندوستانی جارحیت نے کشمیری قوم کے جوانوں پر زندگی تنگ کر دی ہے، وہاں خواتین کے حقوق کی صورتحال بھی بدتر ہے۔

کشمیری عوام اور خواتین جو تکلیفیں سہتی رہی ہیں انہیں کبھی ریکارڈ پر نہیں لایا گیا۔ کتنی ہی خواتین ایسی ہیں جنہیں ہندوستانی افواج اپنی درندگی کا نشانہ بنا چکیں لیکن کیا کبھی اقوام متحدہ یا بنیادی انسانی حقوق کی نمائندہ جماعتوں نے اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا؟ اور اگر لیا تو کیا اقدامات کیے گئے؟ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ان سب کا جواب نفی میں ہی مل سکتا ہے۔

کشمیر سے جڑا ایک درد ناک پہلو ’آدھی بیوہ‘ کہلائی جانے والی خواتین بھی ہیں، اور کشمیر کے علاوہ یہ قوم دنیا میں کہیں اور نہیں ملے گی، جن کے شوہر اس آزادی کی تحریک میں لاپتہ ہوگئے اور پھر ان کی کوئی خیر خبر نہ مل سکی۔

یہ ایک ایسا خوفناک پہلو ہے جس سے اقوام متحدہ سمیت دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیمیں آنکھیں چرائے بیٹھی ہیں۔ ان آدھی بیوہ کہلائی جانے والی خواتین کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ یہاں ہندوستانی افواج کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والی کشمیری جوانوں سے وابستہ 1500 سے زائد خواتین ایسی ہیں جن کے خاوند کے بارے میں قوی گمان یہی ہے کہ وہ اب زندہ نہیں، تاہم ہندوستان کی جانب سے اپنے جرم پردہ ڈالنے کے لیے ان کو سرکاری طور مردہ قرار نہیں دیا گیا جس کی وجہ سے ان سے وابستہ خواتین دکھ بھری زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

غیر حل طلب تنازعات نے کئی دکھ بھری داستانیں چھوڑیں ہیں۔ ان میں سب سے بدقسمت صورت ایسی خواتین کی ہے جن کے شوہر غائب کر دیے گئے ہیں، اور ان کے زندہ یا مردہ ہونے کے بارے میں کوئی معلومات نہیں۔ تاہم مقامی سطح پر انہیں آدھی بیوہ سمجھا جاتا ہے اور بے حسی یہ ہے کہ حکومت کے پاس آدھی بیواؤں کے کوئی اعداد و شمار نہیں۔

یہ انسانی حقوق کے حوالے سے ایک سنگین صورتحال ہے۔ ان خواتین کی معاشرتی زندگی جس بری طرح متاثر ہوئی ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں، کیونکہ یہ خواتین دوبارہ شادی کر کے اپنی زندگی کی تلخیوں سے آگے بھی نہیں بڑھ سکتیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے (2) کی ایک رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کے اداروں کا کہنا ہے مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی افواج نے مسلح مزاحمت کو دبانے کے لیے فوج اور نیم فوجی اداروں نے سینکڑوں افراد کو گرفتار کر کے فرضی جھڑپوں میں ہلاک کیا ہے جس کی وجہ سے وادی میں 6 ہزار سے زائد گمنام قبروں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ تحقیق کے مطابق کشمیر میں ایسی ایک ہزار سے زائد خواتین ہیں جن کے خاوند لاپتہ ہیں۔

ان خواتین کی دوبارہ شادی سے متعلق مسئلے پر چونکہ مسلم علماء کے درمیان اتفاق نہیں ہو پا رہا تھا، اس لیے کشمیر میں سول سوسائٹی کے تحت ایک اہم قدم اٹھایا گیا جس کے تحت لاپتہ ہونے والے افراد کی بیویوں کے مستقبل پر علمائے کرام نے طویل مشاورت کی اور فیصلہ دیا جس کے مطابق ان خواتین کو شادی کرنے کی اجازت دے دی گئی جن کے شوہر کم از کم 4 سال سے لاپتہ تھے۔ اس کے علاوہ ان خواتین کے لاپتہ ہونے والے شوہروں کی جائیداد کی تقسیم کے معاملے کو بھی قرآنی احکامات کی روشنی میں حل کرنے پر زور دیا۔

اہم بات تو یہ ہے کہ 1939 میں منظور کیے گئے ہندوستانی قانون ڈیزولیوشن آف میرج ایکٹ کی رو سے بھی معمول کے حالات میں کوئی شخص لاپتہ ہوجائے تو 4 سال بعد اس کی بیوی دوبارہ شادی کرسکتی ہے۔

یقینی طور پر اس فیصلے نے انتظار کی سولی پر لٹکتی خواتین کو دوبارہ سے زندگی شروع کرنے کا ایک موقع فراہم کیا ہے، اور اس سلسلے میں کشمیر سول سوسائٹی اور علمائے کرام کی جانب سے کی گئی جدوجہد قابل ستائش ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ’آدھی بیوہ‘ کی اصطلاح ہندوستان کی نام نہاد جمہوریت پر لگا ایک بد نما داغ ہے اور کشمیر میں ابتر انسانی حقوق کی صورتحال اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کے علمبرداروں اور جمہوریت کے دعویداروں کے لیے سوالیہ نشان ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں