اسلام آباد: پاکستان کی اہم سول خفیہ ایجنسی انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے چیف 9 فروری کو سینیٹ کی اسٹینڈنگ (قائمہ) کمیٹی کو وزیراعظم سیکریٹریٹ سمیت دیگر حساس عمارتوں اور ان کے گردو نواح میں موجود ظاہری طور پر ڈپلومیٹک انکلیو سے نکلنے والے 'جاسوسی سگنلز' کے بارے میں بریفنگ دینگے۔

آئی بی کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) آفتاب سلطان کی جانب سے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو پاکستان کے خلاف استعمال ہونے والے جاسوسی کے گیجٹ اور ٹیکنالوجی، اور ان سے بچاو کے اقدامات کے حوالے سے بریفنگ متوقع ہے۔

سابق وزیر داخلہ رحمان ملک اور کمیٹی کی چیئرمین نے ڈان کو بتایا ہے کہ 2012 میں وزیراعظم کے کیبنٹ روم میں ایک اجلاس کے دوران انتہائی طاقت ور سگنلز محسوس کیے گئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ مزکورہ سگلنز کو روکنے میں مقامی آلات کی ناکافی صلاحیت کے باعث مزکورہ اجلاس کو منسوخ کردیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ سینٹر رحمان ملک نے گزشتہ سال جون میں کمیٹی کے ایک اجلاس میں یہ انکشاف کیا تھا کہ متعدد غیر ملکی سفارت خانے پاکستان میں اہم شخصیات کے فون ریکارڈ کررہے ہیں اور اس وقت بھی وزیراعظم کے کیبنٹ روم کی جاسوسی کی جارہی ہے۔

رحمان ملک نے یہ انکشاف نواز لیگ کے رکن قومی اسمبلی چوہدری تنویر خان کی جانب سے پیش کی جانے والی ایک قرار داد کے کچھ روز بعد کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ غیر ملکی سفارت خانوں کی طرف سے اہم شخصیات کے فون ٹیپ پر بات چیت کرنے کے لئے ہونے والی بحت کو معطل کیا جائے۔

مزکورہ دعوے کی تحقیقات کیلئے اسے آخر کار سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بھیج دیا گیا۔

سینیٹر رحمان ملک نے ڈان کو بتایا کہ اجلاس کا ابتدائی حصہ ان کیمرہ ہوگا، جس میں جاسوسی اور فون ریکارڈ کے حوالے سے بات چیت ہوگی۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قوائد اور استحقاق کے چیئرمین (ر) کرنل طاہر حسین مشہدی، جو کہ سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے داخلہ کے رکن بھی ہیں، مزکورہ اجلاس میں آئی بی کی جانب سے سابق وزیر خزانہ سلیم مانڈوی والا کے مبینہ طور پر فون ریکارڈ کرنے کا معاملات کو بھی اٹھا سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ طاہر مشہدی نے گزشتہ سال سابق وزیر خزانہ کی جانب سے پیش کی جانے والی ایک قرار داد کے بعد آئی بی کے چیف کو طلب کیا تھا، اس قرار داد میں سابق وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ان کے موبائل فون پر آنے والی کالز کو خفیہ ایجنسی کی جانب سے ریکارڈ کیا گیا ہے۔

جس کے جواب میں آئی بی کے چیف کا کہنا تھا کہ بیورو پارلیمنٹرینز اور سیاست دانوں کے فون ریکارڈ نہیں کرتا ہے، تاہم اس کے پاس دہشت گردوں اور جرائم میں ملوث عناصر کے فون ریکارڈ کرنے کا اختیار موجود ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بیورو کو کسی بھی شخص کا فون ریکارڈ کرنے کے لے پہلے وزیر اعظم سے اجازت لینا ہوتی ہے۔

آئی بی کے چیف کا کہنا تھا کہ 'میں دوٹوک الفاظ میں کہہ سکتا ہوں کہ پارلیمنٹرینز کے فون ریکارڈ کرنے کیلئے مجھے موجودہ اور نہ ہی سابق وزیراعظم کی جانب سے ہدایات دی گئیں'۔

ڈی جی آئی بی کے اس بیان پر سابق وزیر خزانہ نے کمیٹی کو آئی بی کی اندرونی دستاویزات کی کاپی پیش کی جس میں ان کے فون ریکارڈ کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

اس پر آئی بی کے چیف نے ابتدائی طور پر کہا تھا کہ 'انٹرنل میمو' جعالی ہے لیکن تحریری طور پر اس کا جواب دینے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس کی تصدیق کیلئے انھیں مزید وقت درکار ہے۔

جس کے بعد آئی بی چیف سے دس یوم کے اندر رپورٹ طلب کی گئی تاہم اس انٹرنل میمو کا پراسرار معمہ اب تک حل نہیں ہوسکا ہے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے ایجنڈے میں جن دیگر معاملات پر بات چیت کی جائے گی ان میں پاکستان سے غیر قانونی طور پر باہر جانے کی وجوہات، گزشتہ پانچ سالوں سے غیر قانونی تارکین وطن کے مجموعی اعداد و شمار، امیگریشن آرڈیننس 1979 کے نفاذ اور ایجنسیز میں جعلی بھرتیوں کی تعداد اور ان کے خلاف وفاقی تحقیاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے کی جانے والی کارروائی بھی شامل ہے۔

یہ خبر 7 فروری 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں