پاکستان سے باہر موجود لوگوں کے لیے تو واقعات کا یہ سلسلہ ناقابلِ فہم ہی ہوگا۔

منگل کے روز حکومتِ سندھ نے چند ہفتے قبل ریلیز ہونے والی فلم مالک پر پابندی عائد کر دی، جو کہ 8 اپریل سے سنیماؤں میں نمائش کے لیے موجود تھی۔ پابندی کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ فلم میں کراچی کی مخصوص برادریوں کی تضحیک آمیز انداز میں منظرکشی کی گئی ہے (یعنی لسانی بنیادوں پر) جس سے فسادات کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے، اور یہ کہ اس نے (فرضی) وزیرِ اعلیٰ سندھ کو بدعنوان دکھایا ہے۔

مگر باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری ہونے سے قبل وزیرِ اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ معاملہ وفاقی فلم سینسر بورڈ کے سامنے اٹھایا جانا چاہیے۔

ایک دن بعد وفاقی حکومت نے فلم پر ملک بھر میں پابندی عائد کرتے ہوئے پہلے کہا کہ 'فلم سرٹیفائیڈ نہیں تھی' اور بعد میں یہ اعتراض اٹھایا گیا کہ اس میں پولیس فورس وغیرہ کو پریشان کن انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

لیکن کیونکہ فلم کو نمائش کے لیے پیش کیے جانے سے قبل سرٹیفکیٹ جاری کر دیا گیا تھا، اس لیے جو لوگ پاکستان اور یہاں موجود سول ملٹری عدم توازن کو جانتے ہیں، ان کے سامنے اس سے سادہ توضیح موجود ہے: فلم نے ایک بدعنوان سویلین نظام کی منظرکشی کر کے اور مسلح افواج کو مثبت رنگ میں پیش کر کے دکھتی ہوئی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔

مگر شاید خود پر اٹھنے والی انگلیوں بالعموم، اور پاناما لیکس کے بعد الزامات بالخصوص کی وجہ سے سیاسی حکومت نے ایک آسان ہدف کو نشانہ بنایا ہے۔

ریاستِ پاکستان کا پابندیوں کا سہارا لینا اکثر و بیشتر اعلیٰ قیادت کی ذہنیت کا کچا چٹھہ کھول دیتا ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں اختلافِ رائے کے لیے جگہ تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ جو لوگ اعلیٰ عہدوں پر موجود ہیں، چاہیں سویلین ہو یا ملٹری، کیا وہ پوائنٹ اسکورنگ کا سہارا لے رہے ہیں؟

اس خیال کو بروزِ بدھ ہونے والے ایک اور واقعے کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے: ہندوستانی فلمساز کبیر خان، جن کی فلم فینٹم کو پاکستان مخالف تصور کرتے ہوئے اس پر پابندی عائد کر دی گئی تھی اور جنہیں وفاقی حکومت نے ویزا جاری کر دیا تھا، انہیں 'مظاہرین' کے ایک گروہ نے کراچی ایئرپورٹ پر لینڈ کرتے ہی گھیر لیا۔

سینکڑوں مسافروں میں سے ایک کی شناخت کیسے تھی، خاص طور پر ایسا شخص جو کیمرا کے پیچھے رہتا ہے، اب بھی ایک راز ہے۔

پاکستان میں مختلف مقتدر حلقوں کے درمیان رسہ کشی اب پرانی بات ہوچکی مگر اب رسہ کشی قومی بیانیے پر حاوی ہونے کی ہے۔

افسوس کی بات ہے کہ اس سے ملک میں آزادیء اظہار اور مختلف نکتہ ہائے نظر کی موجودگی کی گنجائش سکڑتی جا رہی ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ اداریہ ڈان اخبار میں 29 اپریل 2016 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں