ایک شاعر، بیوروکریٹ اور فوجی کی داستانِ حیات

اپ ڈیٹ 06 ستمبر 2017
دائیں سے بائیں: محمد اقبال دیوان، خالد معین، اور ونگ کمانڈر (ر) سید فیروز علی رضوی
دائیں سے بائیں: محمد اقبال دیوان، خالد معین، اور ونگ کمانڈر (ر) سید فیروز علی رضوی

سوانح نگاری ایک انتہائی مشکل کام ہے، لیکن یہ جس قدر مشکل ہے، اتنا ہی اہم بھی ہے، کیونکہ ایک سوانح نگار کسی شخص کی حیات، اس کے خیالات، اس کے ساتھ رونما ہونے والے واقعات پیش کرتا ہے، جن کی بناء پر اس شخص کے بارے میں آراء قائم کی جاتی ہیں۔

لیکن آپ بیتی لکھنا بھی آسان کام نہیں ہے۔ خود نوشت لکھتے وقت کئی باتوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے، مثلاً خود کے ساتھ پیش آنے والے سینکڑوں واقعات و حالات میں سے اہم ترین کا انتخاب، پھر اگر ان واقعات کو کئی دہائیاں بیت چکی ہیں تو یادداشت پر زور ڈال کر انہیں قرطاس پر منتقل کرنا، اور اس بات کو یقینی بنانا کہ بلاوجہ کسی کی دل آزاری نہ ہو، یا کسی کے بارے میں کوئی ایسی چیز شائع نہ ہوجائے جس کی غلط تشریح عین ممکن ہو۔

آج ہم نے تین خود نوشتوں کا انتخاب کیا ہے، جن کے مصنفین زندگی کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھتے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ تینوں شعبے کسی بھی ملک و قوم کے بنیادی شعبہ جات ہیں، اور ان افراد کے مشاہدات و تجربات پڑھنا یقیناً ہر اس شخص کے لیے اہمیت رکھتا ہے جو شعر و ادب، فنونِ لطیفہ، تاریخ، دفاع، سیاسیات، اور انتظامی امور سے دلچسپی رکھتا ہو۔


کتاب کانام: رفاقتیں کیا کیا (ہم عصر ادب اور شخصیات پر تاثراتی مضامین)


یہ کتاب کراچی شہر کی ادبی زندگی کا احوال ہے اور صاحب کتاب خالد معین ہیں جن کا شمار عہد حاضر کے نمایاں شعراء میں ہوتا ہے جو پیشہ ورانہ طور پر صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔

ان کے اب تک چارمجموعہ کلام، بے موسم وحشت، انہماک، پس عشق، اور ناگہاں شائع ہو چکے ہیں۔ زیر نظر کتاب پہلی نثری کاوش ہے، جس کے بیان میں کراچی کے بدلتے ہوئے ادبی سماج کا منظرنامہ دیکھا جاسکتا ہے۔

انہوں نے اپنی ذات کو مرکزی کردار میں رکھ کر ذیلی کرداروں کے ذریعے روشنیوں کے شہر کی کہانی رقم کی ہے جس میں کہیں تاریکی اور اجالے کا ذکر ہے، کہیں یادوں کی بھیڑ اور کہیں دلِ عاشق کی تنہائی۔


- کتاب: رفاقتیں کیا کیا (ہم عصر ادب اور شخصیات پر تاثراتی مضامین)

- مصنف: خالد معین

- صفحات: 448

- ناشر: دنیائے ادب، کراچی

- قیمت: 350روپے

خالد معین چونکہ مثبت ذہن اور دھیمے لہجے کے شاعر اور مثبت سوچ کے حامل انسان ہیں یہی خوبی اس کتاب پر بھی غالب ہے۔ انہوں نے اپنے یار دوستوں کے علاوہ بھی تذکرے میں ان شخصیات، جن کی شہر میں شہرت اور چرچا منفی ہے، کو بھی اپنے پیار کے رنگ میں مثبت انداز سے ہی رنگا ہے صرف یہی نہیں شاعری کے تناظرمیں بزرگ شخصیات کا ذکر اور کم عمر لکھنے والوں کی بھی خوب حوصلہ افزائی کی ہے۔

خالد معین اپنے ہم عصروں سے تو دلی لگاؤ رکھتے ہی ہیں مگر جن سے فاصلہ بھی رکھتے ہیں تو وہ بھی ''ورنہ پیار ہوجائے گا'' کے مصداق ہوتا ہے۔ کتاب کے دس ابوابِ رفاقت میں ماضی کی نقش کاری کے علاوہ جن شخصیات کا تذکرہ خاص کیا ہے ان میں حسنین جعفری، خالد حمیدی، ساقی امروہوی، اکبر معصوم، عزیز عزمی سمیت ادبی دنیا کی کئی معتبر شخصیات ہیں۔ آخری باب میں دستک کے عنوان سے اپنی شاعری کا مختصر انتخاب بھی شامل کیا ہے جس میں سے ان کا ایک شعر آپ کی نذر ہے۔ اس سے ان کی شخصیت، مزاج اوراس کتاب کی نوعیت کا احساس بخوبی کیا جاسکتا ہے۔

ایک دریچے سے دوآنکھیں روز صدائیں دیتی ہیں

رات گئے گھر لوٹنے والو! شاد رہو آباد رہو


کتاب کا نام: جسے رات لے اُڑی ہوا (گزرے وقتوں کے نئے قصے)


کتاب کے مصنف محمد اقبال دیوان نے پاکستان اور بیرون ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے سند یافتہ ہونے کے بعد پاکستانی سول بیوروکریسی میں قدم رکھا۔ غضب کی نظر اور کمال کا مشاہدہ رکھنے کی وجہ سے یادداشتوں کی بنا پر حقیقی فکشن لکھا۔

ان کی تخلیقات کو یادداشتیں کہیں، جگ بیتی یا پھر فکشن، یہ آپ پر منحصر ہے۔ زبان میں ادبی چاشنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ یہ عام سی بات کو بھی اپنے خوبصورت نثری طرز بیاں سے جادوئی قصہ اورعمدہ کہانی کا رنگ دے دیتے ہیں۔ پانچ ابواب پر مشتمل اس کتاب میں ہمارے معاشرے کے مخفی کرداروں کا تذکرہ ملے گا جن کی داستان زیست صرف ایک کہانی نہیں بلکہ معاشرتی آئینہ بھی ہے جس میں ان کرداروں کے ذریعے اپنا عکس بھی دیکھا جا سکتا ہے۔


- کتاب: جسے رات لے اُڑی ہوا (گزرے وقتوں کے نئے قصے)

- مصنف: محمد اقبال دیوان

- صفحات: 450

- ناشر: ویلکم بک پورٹ، کراچی

- قیمت: 500 روپے

محمد اقبال دیوان نے اپنی اس تصنیف کے بعد کئی کتابیں لکھیں، جن میں افسانوں کی کتاب ''پندرہ جھوٹ اورتنہائی کی دھوپ'' بھی شامل ہے۔ ان کے بارے میں پاکستان کے معروف شاعر اور ڈرامہ نگار امجد اسلام امجد نے لکھا کہ ''ان کے فکشن میں بہت کچھ ہے، سنسنی، تحیر، کشت و خون، دل فریب حسینائیں، دل پھینک عاشق، اہل دل، اہل بصیرت، اہل معرفت، لائق اور نالائق بیوروکریٹ، اونچی فضاؤں میں اڑنے والے ارب پتی، اسمگلر، دربدر پھرنے والے کنگلے، ان پڑھ مگر چالاک لوگ، جاسوس، دہشت گرد، کرائے کے قاتل، جان لینے والے، جان دینے والے۔''

محمداقبال دیوان نے اقبال عظیم کے معروف شعر کے ایک مصرعے ''جسے رات لے اُڑی ہوا، وہ ورق تھا دل کی کتاب کا'' پر اپنی دو کتابوں کے نام رکھے، کتابوں کا متن بھی ایسا ہی ہے، جنہوں نے اس شعر کی جمالیات کا احساس مجروح نہ ہونے دیا۔ عصر حاضر میں تازہ اور شعری رچاؤ میں گندھی ہوئی نثر پڑھنا چاہتے ہیں تو محمد اقبال دیوان کی تمام کتابیں بشمول یہ کتاب آپ کے لیے ہی ہیں۔


کتاب کا نام: رات بھی نیند بھی کہانی بھی (سانحہ مشرقی پاکستان ۔ ایک آپ بیتی)


اس کتاب کے مصنف سید فیروز علی رضوی پاک فضائیہ کے ریٹائرڈ افسر ہیں، جن کی پوسٹنگ اس وقت ڈھاکہ میں تھی، جب مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کا سانحہ ہوا جس کے یہ چشم دید گواہ ہیں اور انہوں نے نہ صرف وہ دور دیکھا بلکہ اسے جھیلا بھی ہے۔


- کتاب: رات بھی نیند بھی کہانی بھی (سانحہ مشرقی پاکستان ۔ ایک آپ بیتی)

- مصنف: ونگ کمانڈر (ر) سید فیروزعلی رضوی

- صفحات: 374

- ناشر: لیزرنیٹ ،کراچی

- قیمت: 400 روپے

پاکستانی فوج بالخصوص پاک فضائیہ کا اس جنگ میں کیا کردار رہا، اس کو تفصیل سے انہوں اس آپ بیتی میں بیان کیا ہے۔ اس کتاب میں سات ابواب پر مشتمل داستان زیست میں انہوں نے انتساب میں لکھا۔ ''یہ کتاب میں 14 اسکواڈرن کے اُن تمام پائلٹس کے نام کر رہا ہوں، جنہوں نے جنگ میں نہایت بہادری اورجرأت مندی کے ساتھ انڈیا کے دس فائٹر اسکواڈرن اور دو بمبار اسکواڈرن کا مقابلہ ہی نہیں کیا بلکہ اُنہیں شکست فاش دی اوراس کتاب میں جو کچھ لکھا ہے سچ ہے اورصرف سچ ہے اورسچ کے سواکچھ نہیں ہے۔''

سید فیروز علی رضوی نے مشرقی پاکستان کے سانحہ کے پس منظر میں آپ بیتی کو لکھ کر ہمیں ایک اور رخ دکھایا ہے جس کے ذریعے ہم یہ مزید بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں کہ اس وقت کیاحالات تھے، کس نے پیدا کیے، خفیہ منفی طاقتیں کون تھیں، پاکستانی فوج کا کیا کردار رہا، بالخصوص پاک فضائیہ کے جوانوں نے کن حالات میں دشمن کامقابلہ کیا، گرفتارہونے والے فوجیوں کے ساتھ دشمن کا سلوک کیسا رہا، کن شخصیات کا اس سارے منظر نامے میں اہم کردار رہا وغیرہ وغیرہ۔

انہوں نے آخری باب میں اپنی چند وضاحتیں، انکشافات، گزارشات اوررائے بھی قلم بند کی ہیں۔ کتاب میں سادہ بیانیے، واقعات کی ترتیب، ملک سے محبت اورجذبہ حریت کی کہانی پڑھتے ہوئے یہ اپنی ذات کی کہانی محسوس ہوتی ہے کیونکہ یہ کہانی ایک فوجی کی نہیں، ایک قوم کی بھی ہے جس کو بحیثیت پاکستانی ہمیں ضرورپڑھنا چاہیے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں