گھاس پھوس سے پختہ گھروں کی تعمیر

اپ ڈیٹ 29 مئ 2016
روبینہ سلیم گھاس پھوس سے بنے ہوئے اپنے تین کمرے کے گھر میں وہیل چئیر پر بیٹھی ہوئی ہیں۔ — تصویر عامرسعید
روبینہ سلیم گھاس پھوس سے بنے ہوئے اپنے تین کمرے کے گھر میں وہیل چئیر پر بیٹھی ہوئی ہیں۔ — تصویر عامرسعید
سلیم خان گھاس پھوس کی گانٹھوں سے بنی ایک دیوار کا بیرونی حصہ دکھا رہے ہیں جسے مٹی کے ساتھ پلستر کیا گیا ہے۔ — تصویر عامرسعید
سلیم خان گھاس پھوس کی گانٹھوں سے بنی ایک دیوار کا بیرونی حصہ دکھا رہے ہیں جسے مٹی کے ساتھ پلستر کیا گیا ہے۔ — تصویر عامرسعید

پاکستان کے علاقے آزاد جموں و کشمیر میں اکتوبر 2005 میں آنے والے خطرناک زلزلے کے نتیجے میں روبینہ سلیم کا گھر مکمل طور پر تباہ ہوگیا تھا اور وہ خود بھی زندگی بھر کےلیے مفلوج ہو گئیں کیونکہ وہ اپنے گھر کے ہی ملبے کے نیچے دب گئی تھیں۔

ان کی زندگی اب دوبارہ پہلے جیسی تو کبھی نہیں ہو سکتی، لیکن پھر بھی وہ خوش قسمت ہیں کہ ایک غیرسرکاری تنظیم پاکسبیب (PAKSBAB) نے انہیں 2013 میں راولپنڈی کے مضافاتی علاقے میں گھاس پھوس سے ایک مضبوط گھر بنا کر دیا ہے۔

وہیل چیئر پر بیٹھی 52 سالہ روبینہ کا کہنا ہے کہ "اس گھر میں کم توانائی خرچ ہوتی ہے، اور ہمارا پچھلا گھر، جو اینٹوں اور پتھروں سے بنا تھا، اس کے برعکس یہ گرمی اور سردی کے دونوں موسموں میں آرامدہ ہوتا ہے۔"

سرخ اینٹوں سے بنے گھروں کے درمیان روبینہ کا گھاس پھوس سے بنا گھر بھی قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے اتنا ہی مضبوط نظر آتا ہے، جتنا کہ اس کے ارد گرد کے پکے گھر۔

وہ اپنے شوہر اور تین بچوں کے ساتھ اس گھر میں رہتی ہیں اور اب وہ ان گھاس پھوس سے بنے گھروں کی حمایت کرتی ہے، خاص طور پر ان پہاڑی علاقوں کے لیے جہاں اکثر زلزلے آنے کا اندیشہ رہتا ہے۔

اس کا کہنا ہے کہ "اگر 2005 والے زلزلے کے وقت میں اسی طرح کے گھر میں رہ رہی ہوتی، تو مجھے یقین ہے کہ میری ریڑھ کی ہڈی کبھی بھی نہ ٹوٹتی۔"

زلزلے مانیٹر کرنے والی ایک ویب سائٹ ارتھ کوئیک ٹریک کے مطابق پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں زلزلے سب سے زیادہ آتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں صرف 2015 میں 215 زلزلے آئے ہیں۔

ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق 2005 کے زلزلے کی وجہ سے پاکستان کو 5.2 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا تھا، کیونکہ اس زلزلے کی وجہ سے تقریباً 28 لاکھ لوگ بے گھر جب کہ 73,000 لوگ مر گئے تھے۔

گھاس پھوس سے گھر بنانا اس لیے آسان ہے کیونکہ یہ زراعت کی ذیلی پیداوار ہے اور آسانی سے مل جاتی ہے۔ پہلے اس کی گانٹھیں بنائی جاتی ہیں اور پھر دیواریں بنانے کے لیے اس کو باقاعدہ ایک فریم میں فٹ کرنے کے بعد مٹی سے پلسترکر دیا جاتا ہے۔ چھت اور دیواروں کو مضبوط کرنے کے لیے لکڑی کے ایک فریم سے سہارا دیا جاتا ہے۔

پاکستان کے مختلف علاقوں میں زلزلہ متاثرین کے لیے پاکسبیب اب تک 40 گھر بنا چکا ہے، اور ان گھروں کے رہائشیوں سے بھی ان کو زبردست پذیرائی ملی ہے۔

تنظیم کی سربراہ ڈارسی میسنر ڈونووان کا کہنا ہے کہ "گھاس پھوس سے گھر تعمیر کرنے کا ہمارا طریقہ یہ ہے کہ قابل تجدید اور مقامی مٹیریل استعمال کیا جائے، جس سے کم خرچ سے گھروں کی تعمیر ہوتی ہے اور یہ زلزلہ پروف ہونے کے ساتھ ساتھ توانائی بچانے میں بھی مدد کرتے ہیں۔"

ایسے گھروں کی تعمیر کی لاگت، مزدوری اور میٹیریل کی قمیت شامل کر کے، تقریبا 500 سے 600 روپے فی مربع فٹ آتی ہے، اور یہ کسی حد تک مٹیریل کی دستیابی اور گھر کے ڈیزائن پر بھی منحصر ہوتا ہے۔

پاکستان میں متوسط طبقے کے گھروں کی تعمیر کی لاگت ان گھروں سے تقریباً تین گنا زیادہ ہے جو کہ 1500 سے 1700 روپے فی مربع فٹ بنتے ہیں۔ پوش علاقوں میں تو گھروں کی تعمیر کی لاگت اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔

ڈارسی کا کہنا ہے کہ، "ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بہت اچھی ٹیکنالوجی ہے جسے لوگوں کی تربیت سے مزید فروغ دیا جا سکتا ہے۔"

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ پاکستان کے کچھ قانون سازوں اور غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ رابطے میں ہیں اور چاہتی ہیں کہ اس پراجیکٹ کو دوبارہ شروع کیا جا سکے۔

پاکسبیب پاکستان میں اب تک کوئی 70 کے قریب مقامی ماہرینِ تعمیرات کو تربیت بھی دے چکی ہے لیکن پیسوں کی کمی کی وجہ سے فی الحال اس نے اپنا کام روک دیا ہے کیونکہ یہ تنظیم تمام گھر زلزلہ متاثرین کو مفت بنا کر دے رہی تھی۔

ڈارسی کا کہنا ہے کہ، "ہمارا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ اس پراجیکٹ کے لیے پیسے اکٹھا کرنا ہے، ہم نے دوستوں کے عطیات اور چھوٹی مالی گرانٹس کے ساتھ کافی کچھ مکمل کر لیا ہے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ اس پراجیکٹ کو اگلے لیول تک لے کر جایا جائے۔"

گھاس پھوس سے بننے والے گھروں کی کئی خوبیاں ہیں جن میں بجلی کا کم استعمال، گرمی کے خلاف مزاحمت اور کم پیسوں میں ان کی تعمیر شامل ہے، لیکن حکومتی عدم توجہی کے سبب انہیں پاکستان میں تاحال وہ پذیرائی نہیں ملی جس کے وہ حقدار ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ لوگ بھی ان گھروں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ آیا یہ زلزلوں، سیلابوں اور لینڈ سلائڈنگ کے خلاف مؤثر ثابت ہو سکیں گے یا نہیں۔

حکومتی عدم توجہی کے باعث زلزلہ پروف اور کم بجلی خرچ کرنے والی عمارتوں کی تمیر نہ ہونے کے سبب قدرتی آفات اور زلزلوں کی صورت میں جانی اور مالی نقصان کا اندیشہ کہیں بڑھ جاتا ہے۔

ایک غیر سرکاری تنظیم پاکستان گرین بلڈنگ کونسل کے سینئر معمار منیب حیدر کا کہنا ہے کہ گرین عمارتوں کے نہ ہونے کی وجہ سے ماحولیات پر بہت برا اثر پڑ رہا ہے جس کو روکنے کی ضرورت ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ گھاس پھوس سے بنی عمارتیں نہ صرف کاربن اخراج کم کرنے میں مدد دیتی ہیں بلکہ سخت موسم اور ہیٹ ویو جیسے عمل کو روکنے میں بھی مدد دیتی ہیں۔ "گھاس پھوس سے بننے والے گھر ماحول دوست بھی ہوتے ہیں کیونکہ ان کا میٹیریل اینٹوں اور پتھروں سے بننے والی عمارتوں کے برعکس آسانی کے ساتھ خود بخود قدرتی طور پر زمین میں تحلیل ہو جاتا ہے۔"

حیدر تاہم اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ان گھروں کی کامیابی کے لیے لوگوں کی مختلف پہلوؤں سے حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے، ان کا کہنا ہے کہ "پاکستان کے شہری اور دیہاتی، دونوں ہی طرح کے علاقوں میں لوگ سوشل اسٹیٹس کا خیال رکھتے ہیں جس کی وجہ سے وہ سمجھتے ہیں کہ گھاس اور مٹی سے بننے والے گھر صرف غریب لوگوں کے لیے موزوں ہیں۔"

کامسیٹ یونیورسٹی کے مرکز برائے ماحولیاتی تحقیق اور ترقی کے سینئر مینیجر بلال انور کا کہنا ہے کہ گھاس پھوس کی گانٹھوں والے جدید طریقہ کار کے باعث زیادہ تر قدرتی آفات کا شکار ہونے والے علاقوں کے لوگوں کو بااختیار بنایا جا سکتا ہے، اور اگر انہیں اس کی مناسب تربیت دی جائے تو وہ قدرتی آفات کے باعث تباہ ہونے والے گھر خود بھی تعمیر کر سکتے ہیں۔

انور کا کہنا ہے کہ قدرتی آفات کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگوں کے بے گھر ہونے کے سبب اور پھر انہیں نئے سرے سے کسی دوسری جگہ پر بسانے کی وجہ سے ماحولیات پر بہت برا اثر پڑتا ہے، اس لیے گھاس پھوس سے بننے والے گھر ماحولیات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ معاشی نقصان بھی کم کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ "قدرتی آفات سے بچاؤ کے لیے کام کرنے والے اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ گرین اور گھاس پھوس سے بننے والی عمارتوں کی اہمیت کو سمجھیں اور مقامی لوگوں، معماروں اور ماحول دوست کارکنوں کے ساتھ مل کر ان کی ترویج بھی کریں۔"

یہ مضمون سب سے پہلے دی تھرڈ پول ڈاٹ نیٹ پر شائع ہوا اور بہ اجازت دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں