واشنگٹن: امریکا نے ایک بار پھر اس تاثر کو رد کیا کہ پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات تاریخ کی نچلی ترین سطح پر ہیں تاہم اس بات کا اعتراف کیا کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات چیلنجز سے بھرپور ضرور ہیں۔

امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان مارک ٹونر نے پریس بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات نچلی ترین سطح پر ہیں‘۔

اس سے قبل اپنے بیان میں مارک ٹونر نے حقانی نیٹ ورک سے مبینہ تعلقات کی پاداش میں پاکستان پر کسی بھی قسم کی پابندی عائد کیے جانے کے امکان کی بھی تردید کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں:امریکا کا پاکستان سے پھر 'ڈو مور' کا مطالبہ

اپنی ہفت وار پریس بریفنگ میں مارک ٹونر نے کہا کہ اسلام آباد کے ساتھ واشنگٹن کے تعلقات مضبوط اور باہمی مفادات پر مبنی ہیں جبکہ یہ خطے کے مفاد میں بھی ہیں۔

مارک ٹونر نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ امریکا اور پاکستان کے تعلقات چیلنجز سے بھرپور ہیں اور امریکا دہشت گردی سمیت کئی معاملات پر پاکستان کے ساتھ انتہائی خاموشی سے کام کررہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر خارجہ کا شیڈول انتہائی سخت ہوتا ہے، وہ کچھ عرصے قبل پاکستان گئے تھے اور انہوں نے اعلیٰ پاکستانی قیادت سے ملاقاتیں بھی کی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں:امریکا-ہندوستان تعلقات کی حوصلہ افزائی، پاکستان پر پھر تنقید

مارک ٹونر نے کہا کہ دراصل امریکی وزیر خارجہ کو اسٹریٹجک اینڈ کمرشل ڈائیلاگ کے لیے انڈیا کے دورے پر جانا تھا لہٰذا انہوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بنگلہ دیش کا دورہ بھی کرلیا، وہ پہلی بار بنگلہ دیش گئے تھے۔

مارک ٹونر نے پاکستان اور انڈیا دونوں کو یقین دہانی کرائی کہ جنوبی ایشیا میں امریکا کی شراکت داری برابری کی بنیاد پر ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں انڈیا کے ساتھ مضبوط تعلقات کی ضرورت ہے لیکن ساتھ ہی ہم پاکستان کے ساتھ بھی مستحکم تعلقات چاہتے ہیں اور ایسا کرنا خطے کے مفاد میں بہتر ہے۔

مزید پڑھیں:پاکستان پر پابندیوں کی تجویز زیرِ غور نہیں، امریکا

انہوں نے اس بات کی بھی یاد دہانی کرائی کہ رواں ہفتے امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی نے پاکستان پر پابندیوں کی تجویز مسترد کردی اور ہماری ترجیح یہ ہے کہ مختلف دہشت گرد گروپس کے خلاف کارروائی پر آمادہ کرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ معمول کے طریقے اپنائے جائیں۔

مارک ٹونر نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات میں اس بات پر زیادہ سے زیادہ فوکس رکھا جائے گا کہ ہم حکومت پاکستان پر زور دیں کہ وہ دہشت گرد گروپس اور ان کے ٹھکانوں کو ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے جو دیگر ممالک اور خطے کے لیے بھی خطرہ بنے ہوئے ہیں اور اس حوالے سے ہمارا موقف بالکل واضح ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ پاکستان کوششیں کررہا ہے لیکن ہم مزید پیش رفت دیکھنا چاہتے ہیں اور پاکستان کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں یہ موضوع شامل رہے گا۔

یہ خبر 11 ستمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


تبصرے (0) بند ہیں