کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے لاپتہ بلوچ سماجی کارکن کے مبینہ اغوا کے خلاف تھانہ سہراب گوٹھ کو مقدمے کے اندارج کا حکم جاری کردیا۔

جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو کی سربراہی میں قائم سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے پولیس کو حکم دیا کہ سماجی کارکن عبدالواحد بلوچ کو لاپتہ کیے جانے کے حوالے سے ایک انکوئری رپورٹ ترتیب دیں اور اسے 23 اکتوبر کو آئندہ کی سماعت میں عدالت میں پیش کیا جائے۔

مذکورہ بینچ عبدالواحد بلوچ کی 20 سالہ بیٹی حانی بلوچ کی آئینی درخواست کی سماعت کررہا تھا، جس میں قانونی چارہ جوئی کیلئے پولیس، رینجرز اور دیگر سیکیورٹی اداروں کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست گزار نے مذکورہ درخواست ایڈووکیٹ صلاح الدین اور ریحان کیانی کے ذریعے عدالت میں جمع کرائی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ان کے والد 26 جولائی کو اندرون سندھ سے کراچی واپس آرہے تھے کہ سہراب گوٹھ کے قریب ان کو سیکیورٹی اہلکار اپنے ہمراہ لے گئے۔

کیس کی سماعت کے دوران ایڈووکیٹ کیانی نے عدالت کو بتایا کہ متاثرہ خاندان نے متعدد مرتبہ سہراب گوٹھ پولیس سے لاپتہ فرد کی تلاش کیلئے مقدمہ درج کرنے کی درخواست کی، تاہم ایسا نہیں کیا گیا۔

اس موقع پر تھانے کے ایس ایچ او نے مذکورہ دعوے کی تردید کی اور کہا کہ نہ تو درخواست گزار اور نہ ہی متاثرہ خاندان کے کسی فرد نے ان سے مقدمے کے اندراج کیلئے رابطہ کیا تھا۔

خیال رہے کہ عبدالواحد بلوچ ایک پبلشر اور مصنف ہیں انھیں 26 جولائی کو سپر ہائی وے کے قریب ٹول پلازہ پر دو نامعلوم مسلح افراد نے روکا تھا۔

ان کے ایک دوست صابر علی صابر جو مذکورہ سفر میں ان کے ساتھ تھے، کا کہنا تھا کہ دونوں افراد نے عبدالواحد بلوچ کو ان کا موبائل فون دیکھنے کے بعد گاڑی سے نیچے اُتارا گیا اور انھیں ایک پک اپ ٹرک کی جانب لے جایا گیا۔

متاثرہ خاندان نے واقعے کے فوری بعد گڈاپ تھانے سے رابطہ کیا تاہم ان کا دعویٰ تھا کہ ایس ایچ او نے مذکورہ مقدمے کے اندراج سے انکار کردیا۔

یاد رہے کہ حانی بلوچ نے 2 اگست کو ہائی کورٹ میں آئینی درخواست جمع کرائی تھی جس کے ساتھ گڈاپ تھانے کو لکھے گئی درخواست اور سول ہسپتال کا اقرار نامہ درج تھا، جہاں عبدالواحد بلوچ ملازمت کرتے تھے۔

مذکورہ رپورٹ 27 ستمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں