سیاہ برقعے میں ملبوس تیز تیز قدم اٹھاتی خاتون اچانک سرپٹ دوڑنے لگی، ابھرتے شور کے ساتھ اس کے پیچھے بھاگتا مردوں کا ایک ٹولہ بھی دکھائی دیا اور پھر چند فرلانگ دور پہنچ کر اس ٹولے نے خاتون کو دبوچ لیا۔

اس سے پہلے کہ سرعام اس بے آبروئی کے نظارے پر عمر رسیدہ خواتین دانتوں میں انگلیاں دباتیں، ایک نوجوان نے اُس ہانپتی کانپتی خاتون کا برقع کھینچ ڈالا اور پھر سب مردوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔

برقعے میں کوئی خاتون نہیں بلکہ ایک مسٹنڈا پردہ نشین تھا۔ پولیس اور میڈیا کے استفسار پر منہ بسورتے ہوئے بولا کہ سارا سارا دن لائن میں کھڑے رہنے کے باوجود باری نہیں آتی تو آخر مرد حضرات کہاں جائیں۔

ہاں برقعے سے مرد کی برآمدگی ہمارے ہم وطنوں کے چند لمحوں کی حیرت اور قہقہوں کا باعث بنی ہو مگر اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ آخر اس شخص کو ایسا کرنے پر کن حالات نے مجبور کیا؟

شناختی کارڈ کی تجدید یا اجرا کے لیے نادرا دفتر کے چکر لگانے والے یہ ضرور جانتے ہوں گے کہ کس طرح بظاہر سیدھا سادہ کام اکثر کتنی ٹیڑھی کھیر ثابت ہوتا ہے۔

ٹوکن حاصل کرنے کے ابتدائی مرحلے سے لے کر اپنی بدنما سی تصویر کھنچوانے تک لمبی لمبی قطاریں دیکھ کر ہی تھکاوٹ اور اکتاہٹ کا احساس پیدا ہونے لگتا ہے۔

بڑے شہروں میں بعض نادرا دفاتر کی صورتحال قدرے بہتر ہو مگر گوجرانوالہ شہر جہاں یہ واقعہ پیش آیا، وہاں تو خواتین کو بھی گھنٹوں شرفِ باریابی نہیں مل پاتا، حیرت ہے کہ اس مرد نے پھر خاتون بننے کی کوشش بھلا کیوں کی؟ کیوں کہ خواتین کی قطار بھلے کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو، مردوں کی قطار سے پھر بھی چھوٹی ہوتی ہے۔

پڑھیے: امارات میں واقع 'مِنی پاکستان'

برقعہ ایونجرز کے بعد نادرا دفتر میں میرے تجربے کی رام کتھا بھی ملاحظہ فرمائیں، زیادہ پرانا قصہ نہیں، صرف چار سال پہلے مجھے اپنی والدہ کے شناختی کارڈ کی تجدید کے لیے گوجرانوالہ شہر کے اسی نادرا آفس جانے کا اتفاق ہوا۔

میں اپنی والدہ کو ہمراہ لیے علی الصبح ہی شیخوپورہ موڑ کے قریب واقع آفس پہنچ گئی مگر وہاں تو دفتر کھلنے سے پہلے ہی لوگوں کا اتنا ہجوم تھا کہ گمان ہوا کہ یہاں مفت راشن دینے کی کوئی تقریب منعقد ہے، بس مہمانِ خصوصی کا آنا باقی ہے۔

دفتر کھلا تو پلک جھپکتے کے ساتھ ہی سارا ہجوم عمارت کے اندرونی حصے کی جانب لپکا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر کھڑکی کے سامنے لمبی قطار لگ گئی۔ والدہ کے ہمراہ میں بھی ایک قطار میں کھڑی ہوگئی۔

شروع شروع میں یہ منظر بے ضرر لگا مگر پھر ہر گزرتے گھنٹے کے ساتھ ٹانگیں شل ہوتی گئیں اور ہمت جواب دینے لگی۔ گرمی، حبس اور دھکم پیل نے برا حال کیا تو میں نے شوگر، بلڈ پریشر اور دل کی مریضہ اپنی والدہ کو کسی مناسب جگہ بٹھانے کا فیصلہ کیا۔

لیکن ایک بار قطار میں لگنا اتنا مشکل تھا تو نکلنا کہاں سہل ہونا تھا، کوئی اپنی جگہ برقرار رکھنے کے لیے مسلسل زور لگا رہا تھا تو کوئی درمیان میں موجود افراد کو دبا کر کھڑکی تک پہنچنے کی کوشش میں تھا۔

پڑھیے: کیا پینشنر ایسے ہی دھکے کھاتے رہیں گے؟

جیسے تیسے میں نے تھکن سے نڈھال اپنی والدہ کو اس قطار سے نکالا اور انہیں بٹھانے کے لیے مناسب جگہ کی تلاش میں نظریں دوڑائیں۔ مگر نادرا کا یہ دفتر پہلے ہی بنی نوع انسان سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔

فرش پر لوگ اس طرح بیٹھے تھے کہ ایک قدم اٹھانا بھی محال ہو رہا تھا۔ جب والدہ کو سہارا دیتے ہوئے بڑی مشکل سے مرکزی ہال سے باہر راہداری میں لے آئی تو یوں لگا کہ جیسے کسی تنگ قفس میں درجنوں پرندوں کے ساتھ قید پرندے نے آزادی پا کر کھلی فضا میں سانس لی ہو ۔

والدہ کو ایک ستون کے ساتھ زمین سے قدرے اونچے جبوترے نما حصے پر بٹھایا، بوتل میں بچے ہوئے پانی کے دو گھونٹ پلائے جو اس وقت تک کافی گرم ہو چکے تھے۔ کھینچا تانی سے الجھنے والی ان کی سانسیں قدرے بحال ہوئیں تو میں پھر واپس دوڑی۔

لوگوں کے ہجوم میں راستہ بناتے اپنی قطار کے قریب جا پہنچی لیکن اب قطار میں چہرے مختلف تھے اور کوئی جگہ دینے کو بھی تیار نہیں تھا۔

پڑھیے: شناختی کارڈ کی تجدید کا اشتعال انگیز سوالنامہ

مجھے دیکھ کر ہر خاتون اپنے ساتھ کھڑی خاتون سے چپک جاتی اور مجھے پیچھے جانے کا اشارہ کیا جاتا، صبح سے سہ پہر ہو چکی تھی اور اس لمبی قطار میں آخری نمبر پر جانے کا حوصلہ نہ پاکر میں نے واپسی کا ارادہ کرلیا۔

شناختی کارڈ تو نہ بنا لیکن کچھ جنت کمانے کو ملی کیوں کہ اگلے کئی روز تک مجھے اپنی والدہ کے پیروں کی ٹکور کرنا پڑی جو مسلسل کھڑے رہنے سے سوج چکے تھے۔ یہ تھا گوجرانوالہ میں شیخوپورہ روڈ پر واقع نادرا آفس میں خواتین کا حال۔ مردوں کے حالات کیا ہوں گے آپ خود ہی اندازہ کر لیں۔

صنعتی شہر کہلانے والا گوجرانوالہ پاکستان کا ساتواں بڑا گنجان آباد شہر ہے۔ 27 لاکھ سے زائد آبادی پر مشتمل گوجرانوالہ کے شہری علاقے میں نادرا کے صرف دو دفاتر موجود ہیں۔

جس میں ایک ایگزیکٹو دفتر ہے جہاں عام فیس کے ساتھ قومی شناختی کارڈ بنوانے والے عام لوگوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں لیکن اگر کوئی تین گنا زیادہ رقم ادا کرنے کا اہل ہو تو اس کے شناختی کارڈ کا اجرا نہ صرف جلد ہوگا بلکہ دفتر میں سلوک بھی انسانوں والا ہوگا، آخر ایگزیکٹو دفتر جو ٹھہرا۔

جبکہ پہلوانوں کے اس شہر کا ہر وہ شہری جو شناختی کارڈ کے اجرا کے لیے 400 روپے کے بجائے 1600 روپے ادا کر کے ایگزیکٹو کا درجہ پانے کی سکت نہ رکھتا ہو تو اس کے لیے ایک الگ دفتر ہے جہاں اسے اکھاڑہ سمجھ کر اترنا پڑے گا اور اس دستاویز کے حصول کے مختلف مراحل طے کرنے کے لیے اپنے تمام تر داؤ پیچ لڑانے ہوں گے۔

شاید پہلوانوں جیسے گارڈز سے کسی دن دو دو ہاتھ بھی کرنے پڑیں۔ نہیں جناب میں اشتعال انگیزی نہیں پھیلا رہی، کیوں کہ رواں سال فروری میں اسی دفتر میں جب عوام نے نادرا کے مسائل کا ذکر میڈیا ٹیموں سے کیا تو گارڈز شہریوں پر ٹوٹ پڑے اور "ہماری شکایتیں کرتے ہو" کے نعرے لگاتے ہوئے ان کے چہروں پر اتنے گھونسے برسائے تھے کہ وہ کم ازکم اگلے کئی روز تک شناختی کارڈ کے لیے تصویر کھنچوانے کے بھی قابل نہیں رہے ہوں گے۔

نادرا کے دفتر میں میڈیا کی موجودگی اتفاقیہ نہیں تھی. کافی قارئین شاید یہ نہ جانتے ہوں کہ نادرا سمیت تقریباً تمام حکومتی اداروں میں میڈیا کے نمائندوں کو داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی۔

پڑھیے: بلاک شناختی کارڈ کھلوانے کا اذیت ناک تجربہ

اس روز میڈیا کی نادرا آفس تک رسائی کی وجہ وہ افسوسناک واقعہ تھا جس میں شناخت کی تلاش میں آنے والی ایک خاتون زندگی کی بازی ہار بیٹھیں۔

نوشہراں ورکاں کی رہائشی پچپن سالہ رسولاں بی بی تین روز سے نادرا کے دفتر آ رہی تھیں۔ تیسرے روز سات گھنٹے قطار میں کھڑے رہنے کے بعد دھکا لگنے سے فرش پر جا گریں، تھکن اور رش کے باعث اٹھ نہ سکیں اور دم گھٹنے کے سبب بالآخر ہلاک ہوگئیں۔

اس تلخ حقیقت کے ساتھ اپنی تحریر کو انجام دینے کا مقصد ایک احساس کو پیدا کرنا تھا جو بے حس حکام بالا میں ختم ہو چکا ہے مگر اس کے ساتھ میں یہ بھی چاہتی تھی کہ عوام سرکاری دفاتر میں لگے تماشوں میں نہ خود تماشہ بنیں اور نہ ہی تماشبین، بلکہ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کریں اور متعلقہ حکام کو نیند سے جگانے کی جرات کریں۔

اگر فراغت میں اعلیٰ حکام میں سے کوئی اس تحریر کو پڑھ رہا ہے تو ان سے درخواست ہے کہ قومی شناخت کا حصول ہمارے لیے باعث فخر ہے، مگر اس کے حصول کے مرحلے میں آسانیاں پیدا کریں تاکہ انسانوں کا وقار مجروح نہ ہو۔


کیا آپ بھی سرکاری دفاتر میں ایسی ہی صورتحال کا سامنا کر چکے ہیں؟ اپنی رائے نیچے کمنٹس میں دیجیے۔

تبصرے (9) بند ہیں

حافظ غلام حسین نقشبندی Oct 14, 2016 05:47pm
یہاں فیصل آباد میں بھی صورت حال کچھ ایسی ہی ہے بالخصوص پولیس لائن کے بالمقابل کچہری روڈ پر واقع نادرا آفس کی
AnwarThinks Oct 14, 2016 07:03pm
سانیہ جی نے نادرا آفس کا جو نقشہ پیش کیا ہے اس سے پاکستان کے ان اداروں جہاں عام سائلین کا ہوشربا ہجوم ایسی ہی صورت حال سے دوچار رہتا ہے. بﺫات خود مجھے بھی اپنی شناخت ایکسپائر ہونے اور نیا پاکستانی بننے پرجس اﺫیت سے گزرنا پڑا اسے لکھتے ہوۓ میرا انٹر نیٹ ﮈیٹا ختم ہونے کا احتمال ہے.
Hasan Raza Oct 14, 2016 07:31pm
جی کراچی میں 2 بار ہمیں بھی تجربہ ہوا ھے صبح 5 بجے لائن میں لگ کر 4 بجے کامیابی مل ہی گئی
Nadeem Ghori Oct 15, 2016 02:53am
Why they charge Rs. 11,500 for NIC in Canada? where it's just Rs. 400 in Pakistan
irfan younas Oct 15, 2016 10:27am
Sania ap ne actual facts show kiye, bohat acha laga, ap ko bus kya batayain, jitne bhi sarkari offices hain, wahan rishwat ki lanat k baghair kam hona bohat mushkil ho gya hai. kya krain. Insanon ki koi qadar nahi, bus pesa pesa pesa laga huwa, bhool gaye hain k ALLAH PAK ki bargah me paish hona hai kya jawab dain gay. Zaleel or ruswa ho jayain ga agar ALLAH pak naraz ho gya. is liye DAR jana chahiye aur toba ker leni chahiye aisay logon ko jo apni duties ko sahi ada nahi kerte aur rishwat ki lanat me paray huwe hain. MUHAMMAD IRFAN
irfan younas Oct 15, 2016 10:28am
@Nadeem Ghori Najaiz fyda utha rahay hain, kon puchay ga un se. apni hakoomat hai.
ch shahzad Oct 15, 2016 11:43am
well said this is real cruel face of good governance.
نجیب احمد سنگھیڑا Oct 15, 2016 10:08pm
نادرا بارے جو نقشہ کھینچا ہے یہ ہر نادرا دفتر کا نقشہ ہے۔ بینکوں اور ڈاکخانوں میں بزرگ پینشنرز کا بھی یہی حال کیا جاتا ہے جو نادرا دفاتر میں سائلین کا کیا جاتا ہے۔ گورنمنٹ محکموں کے آفیسرز عملآ کوئی کاروائی نہیں کرتے۔ اے سی کمروں اور چائے کافی سے بھری ٹیبلوں پر بیٹھے ھدایات کی ایک میمو پر دستخط کر کے سمجھ لیتے ہیں کہ انہوں نے اپنا فرض نبھا دیا ہے۔ حالانکہ ہدایات پر جب تک عمل درآمد نہ ہو وہ کسی کام کی نہیں ہوتیں۔ کرپشن کے ساتھ ساتھ ہمارا ملک اخلاقیات میں بھی گرا ہوا ہے۔ اس کی ذمہ داری تعلیمی شعبے، اساتذہ اور والدین پر عائد ہوتی ہے کہ انہوں نے نئی پود کو راہ راست پر نہیں لایا۔ مساجد سے بھرا پاکستان عملآ وہی کام کر رہا ہے جن کو کرنے سے مساجد میں منع کیا جاتا ہے۔ شکل مومناں کرتوت کافراں ! ۔
noone Oct 16, 2016 11:57pm
you are right , ID card is the basic right of every pakistani, 1. one id card issued should remain valid for life time and should not expire. 2. nadra is not at all capable to provide ID card to all pakistanis after every few years. 3. id card should be free and no fee should be charged. 4. there is an app for smart phone that can scan the bar code on id card and give the complete data of card holder. who leaked the nadra data to app developers?