یونانی بیوی سے بیٹے کے حصول کی جنگ

اپ ڈیٹ 05 اکتوبر 2021
افتخار احمد ناگرہ — اسکرین شاٹ
افتخار احمد ناگرہ — اسکرین شاٹ

اگر کسی پاکستانی سے پوچھا جائے کہ وہ ملک میں رہنا پسند کرے گا یا بیرون ملک روزگار کو ترجیح دے گا تو امکان ہے کہ ہر دس میں سے 7 یا 8 افراد بیرون ملک جانے کو ترجیح دیں گے۔

درحقیقت متعدد پاکستانی قانونی یا غیرقانونی طریقوں سے ملک سے باہر جاتے ہیں اور اگر وہ ذریعہ قانونی نہ ہو تو پھر پردیس میں ان کو ہر طرح کے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔

جس کی ایک مثال پنجاب کے شہر نارووال سے تعلق رکھنے والے افتخار احمد ناگرہ کی ہے جن کی غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے کی داستان کسی کی بھی آنکھیں کھول سکتی ہے۔

جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے کی ایک رپورٹ کے مطابق 2009 سے 2012 تک افتخار احمد غیر قانونی طور پر یونان میں مقیم رہے اور ایک یونانی خاتون آپوستولیا کے ساتھ وطن واپس آکر شادی کی جو لگ بھگ 2013 تک ان کے ساتھ پاکستان میں رہی۔

بظاہر افتخار احمد کا مقصد اس شادی کے ذریعے یونانی شہریت حاصل کرنا تھا اور شادی کے بعد وہاں جانے کے لیے یونانی سفارتخانے کو ویزے کی کئی بار درخواست دی مگر اسے ہر بار مسترد کیا گیا۔

افتخار احمد نے ڈوئچے ویلے کو بتایا'’مجھے سفارتخانے کے اندر بھی جانے نہیں دیا جاتا اور صرف میری بیوی سے ملاقات کرکے پوچھا جاتا کہ ہمارا اس کے ساتھ سلوک کیسا ہے'۔

اس جوڑے نے یونان کے مختلف محکموں سے بھی رابطے کیے مگر کوئی پیش رفت نہ ہو سکی، پھر آپوستولیا حاملہ ہونے کے بعد یونان واپس چلی گئیں اور جنوری 2014 میں بیٹے کی پیدائش ہوئی، مگر اسی سال یونانی سفارتخانے نے افتخار احمد کی ویزے کی درخواست حتمی طور پر مسترد کر دی ۔

اس دوری نے جوڑے کے درمیان تعلق کو بھی کمزور کیا اور افتخار احمد کے بقول 'باہمی رابطہ برقرار رہنے کے باوجود خلیج سی پیدا ہونے لگی مگر مجھے لگتا تھا کہ یونان پہنچ جانے پر حالات پھر پہلے جیسے ہوجائیں گے'۔

حالات میں بہتری لانے کے لیے ہی افتخار احمد ایران اور ترکی کے راستے غیر قانونی طور پر یونان جانے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے ایرانی ویزہ بھی حاصل کرلیا، مگر ترکی میں داخلے سے پہلے سرحدی اہلکاروں کی فائرنگ سے زخمی ہوکر گرفتار ہوگئے۔

مگر اس پاکستانی کا عزم کمزور نہیں ہوا اور ملک واپس آتے ہی ایران اور ترکی کا ویزہ حاصل کیا اور وہاں پہنچ کر دیگر تارکین وطن کی طرح سمندری راستے سے یونان پہنچ گئے۔

وہاں پہنچ کر پہلے تو سیاسی پناہ کی درخواست دی اور پھر اپنی بیوی اور بیٹے سے ملنے کی کوشش کی تو غیر متوقع صورتحال نے ان کے ہوش اڑا دیئے' میں اپنی بیوی سے ملنے اس کے گھر پہنچا تو پہلی جھلک دیکھتے ہی اس نے اپنے بیٹے کو اٹھایا اور سڑک پر دوڑنا شروع کردیا، جبکہ میری سالی نے میرا ہاتھ پکڑ کر پولیس، پولیس چلانا شروع کریا، ایسا لگتا تھا کہ میں اس خاتون کا شوہر اور بیٹے کے باپ کے بجائے کوئی اغوا کار ہوں'۔

بعد ازاں معلوم ہوا کہ آپوستولیا یونان آکر کسی بوائے فرینڈ کے ساتھ رہنے لگی تھی اور دستاویزات میں بیٹے کی ولدیت میں بھی اسی بوائے فرینڈ کا نام درج تھا۔

کسی طرح افتخار کو بیٹے سے ملنے کی اجازت تو مل گئی مگر ملاقات کے دوران اس کی بیوی نے پولیس کو بلاکر اسے گرفتار کرادیا۔

پولیس کی حراست میں افتخار کو معلوم ہوا کہ پہلی دفعہ غیر قانونی آمد پر 2013 میں اس کی غیر حاضری پر ایک یونانی عدالت نے تین سال کی سزا سنادی تھی۔

افتخار کا کہنا تھا' گرفتاری کے فوری بعد یونانی پولیس اپنے ملک سے مجھے نکالنے کے لیے زور دیتی رہی ورنہ تین سال کے لیے جیل میں ڈال دیا جاتا' مگر پھر حیرت انگیز طور پر پولیس نے اسے رہا بھی کر دیا۔

رہائی کے بعد افتخار نے بیٹے کے حصول کے لیے وکیل کی مدد حاصل کرکے یونانی عدالت میں مقدمہ دائر کردیا جو تاحال زیرسماعت ہے، جبکہ یہ پاکستانی شہری ملک بدر کیے جانے کے خوف سے جرمنی پہنچ چکا ہے۔

افتخار اب اپنے وکیل کی مدد سے یونان میں مقدمے کی پیروی کر رہا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ اس کے بیٹے کو اس تک باپ کی اصل پہچان ملنی چاہیے۔

افتخار احمد ناگرہ جرمنی میں بھی سیاسی پناہ کی درخواست دے چکا ہے، جس پر اب تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

عا طف Nov 08, 2016 03:40am
جو بویا تھا وہ کاٹو، ایسے لوگ پاکستان کے لئے با ئث شرم ہیں . جو غیر ممالک جا کر خواتین کا استحصال کرتے ہیں اور دھوکہ دیتے ہیں- پاکستان کی حکومت کو ایسے لوگوں کے خلاف سخت کاروائی کرنی چاہیے .
Imran Nov 08, 2016 10:35am
لاکھوں روپے خرچ کرکے اور جان لیوا مصیبت برداشت کرکے یہ احمق اور بے وقوف لوگ یورپ اور امریکا جاکر نہ صرف خود ذلیل و خوار ہوتے ہیں بلکہ پوری دنیا میں اپنی غیر قانونی حرکتوں سے پاکستان کا نام بھی بدنام کرتے ہیں .....اگر اپنے ملک میں ہی اس رقم سے کوئی ڈھنگ کا کام کریں اور الله سے مدد مانگیں تو کوئی وجہ نہیں کہ کامیاب نہ ہوں ...... لگتا ہے ہمارے پنجاب کے کچھ خاص علاقوں ( گجرات اور نواح ) میں یورپ جانے کی خواہش ایک وبا بلکہ پاگل پن کی شکل اختیار کرچکی ہے ...... حکومت کو چاہیے کہ ان لوگوں پر اور انکے ایجنٹس پر سختی سے کنٹرول کرے !!
Waseem Nov 08, 2016 06:17pm
Imran SAB ne likha hai ke ghair kanoni tareeqa se jo bahir jata hai wo Pakistan ka naam bad nam kerta hai. Aj Pakistan ki maishat main SAB se ahm kerdar berone mulk pakistanis hai, Ager ye log bahir se paise na beje to Pakistan ka Africa ki ghareeb momalik ki tarah hona tha Aj jo Pakistanes bahir Un Main 50% ghair qanoni tareeqa se bahir ghe hai Jab wo qanoni tareeqa se bhi apne mulk main ate ya jate hai airport per mathai ki sorat main rishwat talab ki jati hai,mere hayal main koi bhi apna ghar chor ker perdes nahi Jana chahta per majbori,Ap dekho ghareb bimar ho jai to medicine ka harcha berdasht kerna mushkil hai,1 aam admi ke lia bill dena 2 waqt ki roti bohat mushkil hai Pakistan main,her roz koi na koi ghareeb kisi na kisi uljan main pasa hai,aur jo Ap ke govt AUR is ke sare idare hai 70% koi bhi Kam origion tareeqa se karna mushkil haI