قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی (پی اے سی) نے سمندر سے نوزائیدہ اور چھوٹی مچھلیوں کے شکار اور ان کے پولٹری فیڈ میں استعمال پر پابندی کی سفارش کر دی۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بتایا گیا ہے کہ کراچی سے یومیہ 47 کروڑ 20 لاکھ گیلن سیورج کا پانی سمندر میں شامل ہوتا ہے، کمیٹی کے رکن شفقت محمود نے آلودگی کی صورتحال جان کر مچھلی کھانے سے ہی توبہ کرلی۔

سید خورشید احمد شاہ کی زیر صدارت پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس میں وزارت پورٹس اینڈ شپنگ اور سندھ محکمہ فشریز نے سمندر میں ماہی گیری کی موجودہ صورتحال پر بریفنگ دی۔

سیکرٹری پورٹس اینڈ شپنگ خالد پرویز نے بتایا کہ سمندر میں مچھلی کی مختلف اقسام کی تعداد تیزی سے کم ہو رہی ہے، ہر سال ماہی گیری کیلئے 100 کشتیوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ عالمی ادارہ خوراک نے پاکستان کو فشنگ فلیٹ میں 50 فیصد کمی کی تجویز دی ہے۔

مزید پڑھیں: 'ہماری نسلیں مچھلی صرف ایکوریم میں ہی دیکھیں گی'

اجلاس کے دوران چھوٹی مچھلیوں کو پولٹری فیڈ میں استعمال کرنے کا انکشاف ہوا، سیکرٹری پورٹس اینڈ شپنگ نے بتایا کہ چھوٹی مچھلی کو پولٹری فیڈ میں استعمال کرنے سے ان کی آبادی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔

بریفنگ میں بتایا گیا کہ کراچی سے یومیہ 47 کروڑ 20 لاکھ گیلن سیورج سمندر میں شامل ہو رہا ہے، نہر خیام، کلری نالہ، پچر نالہ، سٹی اسٹیشن نالہ، ملیر ندی، کورنگی انڈسٹریل ایریا اور محمود آباد نالہ سمندر کو زہر آلود کر رہے ہیں۔

کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ سمندر میں 27 کروڑ 50 لاکھ گیلن سیورج کراچی پورٹ اور 13 کروڑ 60 لاکھ گیلن سیورج ڈی ایچ اے سے شامل ہوتا ہے۔

پی اے سی نے فشریز کے شعبے کے تحفظ کے لیئے 3 رکنی ذیلی کمیٹی تشکیل دے دی، کمیٹی نے سفارش کی کہ کراچی میں سیورج ٹریٹمنٹ پلانٹ نہ لگانے والی فیکٹریز کو بند کرایا جائے۔

پی اے سی نے چھوٹی مچھلی کے شکار پر پابندی کے علاوہ اس کی چکن فیڈ تیاری میں استعمال پر بھی پابندی کی سفارش کر دی۔ اجلاس کے دوران محمود خان اچکزئی نے 6 ہزار غیر ملکیوں کو ڈیپ سی فشنگ لائسنس دینے پر تشویش کا اظہار کیا جس پر سیکرٹری پورٹس اینڈ شپنگ کا کہنا تھا کہ لائسنس کا اجرا وفاق نے نہیں سندھ حکومت نے کیا۔

سیکریٹری کا مزید کہنا تھا کہ ہمارا موقف ہے کہ گہرے سمندر میں بھی چھوٹے ماہی گیر کو مچھلی پکڑنے کی اجازت ہونی چاہئیے، کراچی ہاربر میں صرف 500 ٹرالرز کی گنجائش ہے لیکن چھ ہزار لائسنس جاری کیے ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں مچھلیوں کی نئی اقسام کی دریافت

صوبائی وزیر فشریز سندھ محمد علی ملکانی کا کہنا تھا کہ ہم نے سات آٹھ سال سے کوئی نیا لائسنس نہیں دیا بلکہ ہم پہلے سے جاری کردہ لائسنس کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس صورتحال میں وفاقی حکومت گہرے سمندر کے لائسنس دینے کا کیوں سوچ رہی ہے، سندھ، بلوچستان اور وفاق تینوں نئے لائسنس کے اجراء پر پابندی لگائیں۔

کمیٹی نے ارکان نے اس بات کا عزم ظاہر کیا کہ مچھلی کی افزائش کے مہینوں میں شکار کی پابندی پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے۔

صوبائی وزیر فشیرز نے کہا کہا جون جولائی کے مہینوں میں فشنگ پر پابندی ہے، یقین دلاتا ہوں اس پر سختی سے عمل ہو گا۔

فشریز حکام نے خبردار کیا کہ آلودگی کے مسئلے پر قابو نہ پایا تو ہماری مچھلی کی برآمدات پر پابندی لگ جائے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں