کراچی: سندھ اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کی خاتون رکن نصرت سحر عباسی اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے وزیر امداد پتافی کے درمیان ہونے والی زبانی جنگ نے نہ صرف ٹی وی پر اسمبلی کی کارروائی دیکھنے والے ہزاروں افراد کی توجہ حاصل کی بلکہ تجزیہ کاروں کے مطابق اس معاملے نے ’لبرل اور ترقی پسند‘ کہلائی جانے والی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے خواتین سے متعلق نظریات کو بھی واضح کردیا۔

سندھ اسمبلی میں اس گرما گرمی کا آغاز اُس وقت ہوا جب نصرت سحر عباسی نے امداد پتافی سے ایک سوال کیا، جس کے جواب میں انہوں نے نصرت سحر عباسی کو ’اطمینان بخش جواب‘ کے لیے اپنے چیمبر میں آنے کی دعوت دی۔

بات یہیں تک محدود نہ رہی، بلکہ ٹیلی ویژن کیمروں نے پیپلزپارٹی کے برطانیہ سے تعلیم یافتہ قانون ساز نواب محمد تیمور تالپور کو بھی خاتون رکن نصرت سحر عباسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ریکارڈ کرلیا، جس پر حکمراں جماعت کے دیگر افراد قہقہے مار کر ہنستے رہے۔

واضح رہے کہ اُس وقت ایوان میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ بھی موجود تھے۔

اسمبلی میں موجود بیشتر قانون سازوں کے لیے چند منٹ تک جاری رہنے والی یہ کارروائی ناپسندیدہ تھی تاہم ان میں سے کسی نے بھی اس پر حیرت کا اظہار نہ کیا۔

ساتھ ہی اس واقعے نے قومی اسمبلی میں ہونے والے اُس شور شرابے سے بھرے واقعے کی یاد بھی تازہ کردی جب گذشتہ سال جون میں وزیر دفاع خواجہ آصف پاکستان کو تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رکن شیریں مزاری کے لیے ناپسندیدہ کلمات ادا کرنے پر اپوزیشن قانون سازوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

یہ دونوں واقعات اکثریت کے علم میں ہیں جس کی اہم وجہ انہیں ملنے والی میڈیا کوریج ہے تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق ایسے کئی متنازع واقعات ہیں جو رپورٹ نہیں ہوپاتے۔

یہ بھی پڑھیں: شیریں مزاری کو 'ٹریکٹر ٹرالی' کہنے پر معذرت

پاکستان میں انسانی حقوق کمیشن سے وابستہ زہرہ یوسف ان واقعات کو افسوس ناک قرار دیتی ہیں اور ان کا خیال میں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں مردوں کی حاکمیت موجود ہے۔

جب ان سے سندھ اسمبلی میں ہونے والے مذکورہ واقعے پر تبصرے کے لیے کہا گیا تو زہرہ یوسف کا کہنا تھا کہ صورتحال اُس وقت زیادہ سنگین ہوجاتی ہے جب لبرل اور ترقی یافتہ ہونے کی دعویدار جماعتیں جیسے کہ پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے افراد اس طرح کے رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں، ’میرے خیال میں آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کو اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیئے‘۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکن عاصمہ جہانگیر نے بھی واقعے پر اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا۔

انہوں نے اسے ’شرمناک‘ قرار دیتے ہوئے اس میں ملوث ارکان صوبائی اسمبلی کے خلاف مناسب کارروائی کا مطالبہ کیا۔

نجی ٹیلی ویژن سے بات کرتے ہوئے عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ ’ایک بار ان پر جرمانہ عائد کردیا جائے تو آئندہ کوئی اس انداز میں بات کرنے کی ہمت نہیں کرسکے گا‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ شرم کا مقام ہے کہ یہ لوگ عورتوں سے بات کرنے کی تمیز نہیں جانتے، کیا یہ چند احمق افراد واقعی اسمبلی میں لوگوں کے منتخب نمائندے ہیں؟

عاصمہ جہانگیر کے مطابق یہ واقعہ ہمارے معاشرے کی ذہنیت کو واضح کرتا ہے اور وفاقی محتسب کو اس کا نوٹس لینا چاہیئے۔


یہ خبر 21 جنوری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں