اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناما لیکس کے معاملے پر دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف کے دلائل مکمل ہوگئے، تاہم انھیں عدالت عظمیٰ کی برہمی کا سامنا کرنا پڑا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے جب سماعت کا آغاز کیا تو جماعت اسلامی کے وکیل توصیف آصف نے اپنے دلائل جاری رکھے۔

جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے دلائل کے آغاز میں ظفر علی شاہ کیس کا حوالہ دیا، جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ آپ جس کیس کا حوالہ دے رہے ہیں اس میں خالد انور نواز شریف کے وکیل نہیں تھے۔

توفیق آصف نے جواب دیا کہ وہ خالد انور کے عدالت میں دیئے گئے دلائل بیان کرنا چاہتے ہیں اور اس بات کو اسٹیبلش کریں گے کہ مرحوم قانون داں خالد انور نواز شریف کی وکالت کرتے رہے ہیں۔

توفیق آصف نے کہا کہ ظفر علی شاہ کیس کے فیصلے میں ذکر ہے کہ لندن فلیٹس شریف خاندان کے تھے ۔

جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی فیصلے میں لندن فلیٹس کے بارے میں کوئی بات نہیں تھی، عدالت نے فیصلہ میں مبینہ کرپشن کا ذکر کیا، مبینہ کرپشن کو فیصلہ نہیں کہہ سکتے۔

مزید پڑھیں:لندن فلیٹس 90 کی دہائی سے شریف خاندان کی ملکیت ہیں،بی بی سی

اس موقع پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ فیصلے میں کہا گیا کہ نواز شریف گڈ گورننس میں ناکام ہوئے۔

انھوں نے جماعت اسلامی کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے کیس کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے، خالد انور نواز شریف کے نہیں درخواست گزار کے وکیل تھے۔

اس موقع پر جسٹس عظمت سعید نے وکیل جماعت اسلامی توفیق آصف سے کہا کہ 'وکیل صاحب! آپ کو پتہ ہی نہیں ہے، آپ نے فیصلہ بھی نہیں پڑھا اور حوالہ دے رہے ہیں'۔

انھوں نے مزید کہا کہ 'نہ آپ نے فائل دیکھی اور نہ فیصلہ پڑھا، وکیل صاحب آپ نے بے بس کر دیا، آپ قانون کے بنیادی اصولوں کو نظرانداز کر رہے ہیں'۔

اس موقع پر توفیق آصف نے کہا کہ مجھے پیراگراف127 پڑھنے کی اجازت دیں، جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جو دل کرتا ہے وہ پڑھتے رہیں۔

وکیل جماعت اسلامی نے جواب دیا کہ خالد انور نے نواز شریف کا دفاع کیا تھا۔

جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ خالد انور کے پاس نواز شریف کا وکالت نامہ نہیں تھا۔

جسٹس کھوسہ نے توفیق آصف کو وکیل کی استدعا بنانے کے بجائے عدالت کی فائنڈنگ بتانے کی تاکید کی۔

جماعت اسلامی کے وکیل نے دلائل کے دوران لندن فلیٹس کا تذکرہ کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ فلیٹس التوفیق کیس میں گروی رکھے گئے۔

اس موقع پر جسٹس عظمت سعید نے جماعت اسلامی کے وکیل کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ نے اپنے موکل کو جتنا نقصان پہنچانا تھا پہنچا دیا۔

جس پر توفیق آصف نے جواب دیا کہ لگتا ہے آج عدالت مجھے سننا ہی نہیں چاہتی۔

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ آپ چاہیں تو گیارہ سال تک دلائل دیں لیکن ایک ہی بات بار بار نہ دہرائیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ابھی تک آپ نے جو حوالے دیئے ان کا لندن فلیٹس سے کیا تعلق بنتا ہے۔

جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ آپ ہمیں وہ پڑھانا چاہتے ہیں، جو اس فیصلے میں لکھا ہی نہیں۔

جبکہ بنچ کے سربراہ جسٹس کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ یہ بات طے شدہ ہے کہ آپ جن فلیٹس کا حوالہ دے رہے ہیں اس حوالے سے فیصلے میں کوئی بات نہیں کی گئی۔

جماعت اسلامی کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملزم چونکہ جیل میں تھا اسی لیے کسی اور نے ادائیگی کر دی تھی۔

جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ یہ دلیل دفاع کے وکیل نے دینی تھی آپ نے دے دی ۔

اس موقع پر تحریک انصاف کے رہنماوں نے جماعت اسلامی کے وکیل کے دلائل پر قہقہے لگائے۔

یہاں پڑھیں: پاناما کیس: نواز شریف کے حکومتی عہدوں کی تفصیلات پیش

توفیق آصف نے دبئی ملز کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ طارق شفیع کا بیان حلفی درست نہیں تھا، جس پر جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے اس کو غلط ثابت کرنے کے لیے جوابی بیان حلفی دیا تھا؟

توفیق آصف نے جواب دیا کہ عدالت اگر چاہے تو شہادتیں بھی ریکارڈ کرا سکتی ہے، تاہم جسٹس کھوسہ نے جواب دیا کہ فیصلے میں ان تمام زاویوں کا جائزہ لیں گے۔

ساتھ ہی انھوں نے شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دبئی مل کی فروخت سے لندن فلیٹس خریدے گئے، جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ شک کا فائدہ کس کو جاتا ہے۔

توفیق آصف نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی کہ وزیراعظم نواز شریف کو عدالت طلب کر کے بیان ریکارڈ کیا جائے اور الزامات کا جواب طلب کیا جائے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف پر تمام درخواست گزاروں کو جرح کا موقع دیا جائے۔

جس پر جسٹس کھوسہ نے جواب دیا کہ جب ہم سب کو سن لیں گے تو اس بارے میں فیصلہ کریں گے اور اگر ضرورت ہوئی تو نواز شریف کو بلائیں گے ورنہ نہیں۔

اس کے ساتھ ہی جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف کے دلائل مکمل ہوگئے۔

دوسروں کے سہارے حاصل کرنے والا زیر کفالت، معاون وکیل کے دلائل

وکیل جماعت اسلامی توفیق آصف کے دلائل مکمل ہونے کے بعد پاناما کیس میں عدالت کے معاون احسن الدین نے زیر کفالت ہونے کے لغوی معنی اور تشریح بیان کی اور بتایا کہ دوسروں کے سہارے حاصل کرنے والا زیر کفالت ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ وزیراعظم نواز شریف نے 2012 میں مریم نواز کے نام پر مانسہرہ میں جائیداد خریدی تھی، وہ زیر کفالت تھیں۔

یہ بھی پڑھیں:پاناما کیس: 'مریم نوازکو بچانے کیلئےحسین نواز کو آگے لایا گیا'

اس موقع پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے زیر کفالت ہونے پر کسی کی نااہلی کا فیصلہ بھی دکھانے کا کہا۔

ایڈووکیٹ احسن الدین نے عدالت کی معاونت کرتے ہوئے کہا کہ تمام ثبوت سامنے آنے کے بعد عدالت کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داری ہے۔

جس پر جسٹس گلزار نے سوال کیا کہ سارے ثبوت کون سے ہیں؟ جب کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تصحیح کی کہ اس سب کو ثبوت نہیں مٹیریل (مواد) کہہ سکتے ہیں۔

جسٹس عظمت سعید نے سوال کیا کہ اگر قانون شہادت کو پرکھنے پر معلوم ہوا کہ مواد کا بڑا حصہ فالتو ہے تو پھر کیا ہوگا؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ نتیجہ اخذ کرنے کے لیے عدالت کو کیا طریقہ اختیارکرنا چاہیے ؟

جس پر شیخ احسن الدین نے جواب دیا میں طریقہ کار کا تعین کیسے کرسکتا ہوں، یہ آپ نے دیکھنا ہے۔

مریم نواز کا عدالت میں پیش کردہ بیان مسترد

سماعت کے دوران وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے اپنے وکیل شاہد حامد کے توسط سے لندن فلیٹس سے متعلق اضافی دستاویزات سپریم کورٹ میں جمع کرائیں۔

مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے سپریم کورٹ میں جواب پڑھ کر سنایا، جس میں مریم نواز کا کہنا تھا کہ ان پر لندن فلیٹس کی بینیفیشل مالک ہونے کاجھوٹا الزام عائد کیا گیا اور درخواست گزار جن دستاویزات پر انحصار کر رہا ہے، وہ ان کو پہلے ہی مسترد کر چکی ہیں۔

دستاویزات کے مطابق مریم نواز کا موقف تھا کہ وہ لندن فلیٹس کی بینیفیشل مالک نہیں ہیں، یہ فلیٹس ان کے بھائی حسین نواز کی ملکیت اور ان ہی کے زیر استعمال ہیں۔

مزید پڑھیں:جرمن اخبار نے مریم نواز کا پاناما پیپر سے تعلق ظاہر کردیا

ان کا کہنا تھا کہ میرے بھائی حسین نواز نے دو شادیاں کر رکھی ہیں، ایک اہلیہ سے چار اور دوسری سے تین بچے ہیں اور حسین نواز کی دونوں بیویاں مختلف ممالک کی شہریت رکھتی ہیں۔

مزید کہا گیا کہ حسین نواز منروا فنانشل سروسز سے رابطے میں تھے اور بھائی کی درخواست پر انھوں نے منروا کمپنی کے ساتھ روابط کی اتھارٹی قبول کی، لیکن آج تک نہ تو منروا کمپنی کا دورہ کیا اور نہ ہی اس کمپنی کے کسی اسٹاف سے ملاقات کی۔

جواب کے مطابق حسین نواز اور قطر کے الثانی خاندان کے درمیان معاہدہ جنوری 2006 میں ہوا، جس کے بعد منروا کے ڈائریکٹرز کو تعینات کیا گیا اور ٹرسٹ ڈیڈ منرووا ڈائریکٹرز کی تعیناتی کے عمل کے بعد کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ جلاوطنی کے دوران وہ اپنے شوہر اور بچوں کے ہمراہ جدہ میں مقیم رہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما کیس: مریم نواز نے تمام الزامات مسترد کردیئے

مریم نواز نے اپنے جواب میں اپنی شادی اور بچوں کی تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ 1992 کے بعد سے وہ کبھی بھی اپنے والد کے زیر کفالت نہیں رہیں، جبکہ 2013 میں انھوں نے جو کاغذات نامزدگی داخل کروائے اس وقت بھی وہ ان کے زیر کفالت نہیں تھی۔

مریم نواز کا کہنا تھا کہ دلائل کے دوران اس پر تفصیلی جواب بھی ان کے وکیل دیں گے۔

تاہم عدالت عظمیٰ نے مریم نواز کے تحریری بیان کو مسترد کردیا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ مریم نواز کے بیان والے صفحے پر ان کے دستخط نہیں ہیں، اس لیے بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔

بعدازاں کیس کی سماعت کل بروز بدھ (23 جنوری) تک کے لیے ملتوی کردی گئی، جہاں مریم نواز کے وکیل شاہد حامد اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔

گذشتہ سماعت

یاد رہے کہ گذشتہ روز یعنی 23 جنوری کو ہونے والی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے پاناما کیس کے فریقین کو کہا تھا کہ وہ اپنے تبصرے اپنے پاس رکھیں اور عدالت کو کارروائی کرنے دیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے یہ ریمارکس جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف کے ان دلائل پر دیئے تھے جب انھوں نے سپریم کورٹ میں کہا تھا کہ پوری حکومتی مشینری پاناما کیس کا دفاع کررہی ہے۔

مزید پڑھیں:'وزیراعظم کی تقریر اسمبلی کارروائی کاحصہ، مگر استحقاق حاصل نہیں'

توفیق آصف نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ وزیراعظم اور ان کے بچوں کے دفاع کے لیے وزراء عدالت آرہے ہیں، یہ کیس حکومت کی کارکردگی کے خلاف نہیں بلکہ ایک خاندان کے خلاف ہے اور پوری حکومت پر الزام بھی نہیں مگر پھر بھی ساری حکومت پاناما کا دفاع کررہی ہے۔

جس پر جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ عدالت کے باہر جو کچھ کہا جا چکا بہت ہے، سارے لوگ اپنی کمنٹری خود تک رکھیں اور فیصلے کا انتظار کریں، جس نے جو برا بھلا کہنا تھا کہہ دیا، سڑکوں پر جو ہونا تھا ہو چکا، اب عدالتی فیصلے کا انتظار کریں۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما کیس: 'معاملہ وزیراعظم کی اہلیت کا ہے'

یہ بھی یاد رہے کہ 4 جنوری سے پاناما کیس پر درخواستوں کی سماعت سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں قائم نیا 5 رکنی لارجر بینچ کررہا ہے جس میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس اعجاز افضل، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس گلزار احمد شامل ہیں۔

پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)،جماعت اسلامی پاکستان (جے آئی پی)، عوامی مسلم لیگ (اے ایم ایل)، جمہوری وطن پارٹی (جے ڈبلیو پی) اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی تھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں