اسلام آباد: سپریم کورٹ میں پاناما لیکس کے معاملے پر وزیراعظم کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے اپنا تحریری جواب جمع کرادیا، جس میں انھوں نے اپنے خلاف تمام الزامات کو مسترد کردیا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے پاناما لیکس پر درخواستوں کی سماعت کی۔

سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں مریم نواز کا کہنا تھا کہ وہ جائیداد کی بینیفیشل مالک نہیں، صرف کمپنیوں کی ٹرسٹی اور سگنیٹری ہیں اور ٹرسٹی ہونے کا مقصد موجودہ ٹرسٹی کی موت کی صورت میں ٹرسٹ کو چلانا ہے۔

اسحاق ڈار اور مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے عدالت کے روبرو مریم نواز کی آمدنی، جائیداد اور ٹیکس کی تفصیلات جمع کروائیں جس کے مطابق 2013 میں ان کی آمدنی 2 لاکھ 26 ہزار 40 روپے تھی جو 2014 میں 12 لاکھ 59 ہزار 132 روپے ہوگئی۔

جواب میں مزید بتایا گیا ہے کہ 2015 میں ان کی آمدن 9 لاکھ 73 ہزار 243 روپے جب کہ 2016 میں ان کی آمدن 4 لاکھ 89 ہزار 911 روپے رہی۔

نیسکول سے متعلق دستاویزات پر مریم نواز نے مؤقف اختیار کیا کہ دستاویزات پر موجود دستخط جعلی ہیں۔

ان کے جمع کرائے گئے جواب کے مطابق شمیم ایگری فارمزالمعروف رائیونڈ اسٹیٹ میں 5 گھرہیں،جن میں سے ایک گھرمیں دادی شمیم اختررہائش پذیر ہیں، ایک گھر میں ان کے والد اور والدہ رہتے ہیں، تیسرا گھر مرحوم چچا عباس شریف کے اہل خانہ کے پاس ہے، چوتھے گھر میں شہباز شریف کی فیملی جبکہ پانچویں گھر میں وہ خود رہتی ہیں۔

جواب کے مطابق رائیونڈ اسٹیٹ میں ان جائیدادوں میں سے بیشتر زمینیں ان کی دادی شمیم اختر کے نام ہیں۔

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے شریف فیملی کے مالیاتی مشیر ہارون پاشا کا انٹرویو بطور ثبوت عدالت میں جمع کرایا گیا جو انہوں نے 6 دسمبر 2016 کو نجی ٹی وی کو دیا تھا۔

عمران خان نے عدالت سے استدعا کی کہ انٹرویو کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔

جسٹس آصف سیعد کھوسہ کا کہنا تھا کہ اگر شریف خاندان کے وکیل منروا فنانشل سروسز لمیٹڈ سے اپنی ملکیت ثابت کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو عدالت کو یہ ماننا پڑے گا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل کے دعوے درست ہیں۔

واضح رہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ نیسکول لمیٹڈ، نیلسن انٹرپرائسز اور لندن کے چار فلیٹس کے مالک حسین نواز نہیں بلکہ مریم نواز ہیں۔

دوران سماعت پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری کے دلائل پر عدالت کا کہنا تھا کہ دستاویزات سے متعلق عدالت کو مطمئن کیا جائے، جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ اگر شریف خاندان کمپنیوں کی ملکیت تسلیم کرتی ہے تو دستاویز فراہم کرنا بھی ان کی ذمہ داری ہے، انہیں بتانا پڑے گا کہ کمپنیاں کب بنیں، کس نے بنائیں اور اس کے لیے پیسہ کہاں سے آیا۔

جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ اس عدالت کو بے اختیار نہ سمجھا جائے، عدالت کے پاس اختیار ہے کہ ریکارڈ پیش کرنے کا حکم جاری کرے۔

بعدازاں عدالت نے سماعت پیر 9 جنوری تک ملتوی کردی، اگلی سماعت میں بھی پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔

'آدھا کیس پی ٹی آئی وکلاء نے حل کردیا'

سماعت کے اختتام پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ آدھا کیس پی ٹی آئی کے وکلاء خود حل کرچکے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جان بوجھ کر عدالت میں جھوٹ بولا گیا اور کیس میں نواز شریف کو شامل کرنے کے لیے کہا گیا کہ مریم نواز وزیراعظم کی زیر کفیل ہیں۔

'تمام شواہد جمع کرادیئے'

دوسری جانب ترجمان پی ٹی آئی رہنماؤں کا میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ عدالت میں تمام شواہد جمع کرادیئے گئے ہیں اور عدالت کا کہنا ہے کہ وہ سچ تک پہنچنے کے لیے کسی بھی حد تک جائے گی۔

یاد رہے کہ گذشتہ روز ہونے والی سماعت میں وزیراعظم نواز شریف کے وکیل مخدوم علی خان نے وزیراعظم کے اب تک کے حکومتی عہدوں کی تفصیل عدالت میں پیش کی تھی جس میں 1981 سے لے کر 2016 تک ان کی تعیناتیوں کا ریکارڈ شامل تھا۔

مزید پڑھیں: پاناما کیس: نواز شریف کے حکومتی عہدوں کی تفصیلات پیش

سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے عدالت سے اجازت طلب کی تھی کہ وہ وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کے انٹرویوز کا حوالہ دینا چاہتے ہیں جن میں لندن فلیٹس کی ملکیت کے حوالے سے ان سب کے موقف میں تضاد پایا جاتا ہے۔

جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے اہلخانہ کو عدالت میں طلب کرکے پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا وہ لندن فلیٹس سے متعلق اپنے بیانات پر اب بھی قائم ہیں یا نہیں تاہم شیخ عظمت سعید کا کہنا تھا کہ اس وقت عدالت ایسا نہیں کرے گی۔

گذشتہ سماعت میں نعیم بخاری نے وزیراعظم کی جانب سے 5 اپریل 2016 کو قوم سے کیے گئے خطاب اور 16 مئی کو پارلیمنٹ میں کی جانے والی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس وقت نواز شریف کی جانب سے قطری سرمایہ کاری کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا تھا اور 10 اپریل 2000 کو برطانوی اخبار 'گارجین' کو دیئے جانےوالے انٹرویو میں کلثوم نواز نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ لندن فلیٹس اس لیے خریدے گئے کیونکہ ان کا بیٹا وہاں تعلیم حاصل کررہا تھا۔

جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے نعیم بخاری کو متنبہ کیا کہ وہ خطرناک حد میں داخل ہورہے ہیں اور ریمارکس دیئے کہ 'اگر ہم ٹی وی انٹرویوز اور اخبار کی خبروں کی بنیاد پر لوگوں کو لٹکانا شروع کردیں تو پھر آپ کے مؤکل بھی نہیں بچ پائیں گے'۔

نعیم بخاری کے دلائل پر جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ ایک بات واضح ہے کہ 1999 میں نوازشریف کے بیٹے کی اپنی کوئی کمائی نہیں تھی مگر وہ لندن کے فلیٹس میں رہائش پذیر تھے۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما کیس: سپریم کورٹ کا روزانہ کی بنیاد پر سماعت کا فیصلہ

جسٹس اعجاز افضل نے نعیم بخاری سے متعدد بار لفظ 'زیر کفیل' ہونے کی تعریف بیان کرنے کا بھی کہا، ان کا کہنا تھا کہ اگر مریم نواز کی لندن میں مہنگی جائیدادیں موجود تھیں اور وہ بینفیشنل اونر ہیں تو نعیم بخاری اس بات پر اصرار کیسے کرسکتے ہیں کہ وہ وزیراعظم کی زیرکفالت ہیں۔

عدالت کا کہنا تھا کہ جب تک لفظ زیرکفیل کی وضاحت نہیں ہوجاتی یہ سب باتیں 'ہوائی قلعے' کے مترادف ہیں۔

یاد رہے کہ 4 جنوری سے پاناما کیس پر درخواستوں کی سماعت سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں قائم نیا 5 رکنی لارجر بینچ کررہا ہے جبکہ نئے چیف جسٹس 5 رکنی لارجر بینچ کا حصہ نہیں۔

لارجر بینچ میں جسٹس آصف کھوسہ، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس اعجاز افضل، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس گلزار احمد شامل ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)،جماعت اسلامی پاکستان (جے آئی پی)، عوامی مسلم لیگ (اے ایم ایل)، جمہوری وطن پارٹی (جے ڈبلیو پی) اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Riz Jan 06, 2017 07:06pm
Why don't Sharif family simply disowned all those properties and in written give it Pakistan and to Pakistani's people as the gift and leave the rest on Supreme Court how they'll recover this property and its money?