اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناما لیکس کے معاملے پر درخواستوں کی سماعت کے دوران جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے حکومتی رہنماؤں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پوری حکومتی مشینری کیس کا دفاع کررہی ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے جب سماعت کا آغاز کیا تو جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کے دفاع کے لیے وزراء عدالت آرہے ہیں، یہ کیس حکومت کی کارکردگی کے خلاف نہیں بلکہ ایک خاندان کے خلاف ہے اور پوری حکومت پر الزام بھی نہیں مگر پھر بھی ساری حکومت پاناما کا دفاع کررہی ہے۔

جس پر جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ عدالت کے باہر جو کچھ کہا جا چکا بہت ہے، سارے لوگ اپنی کمنٹری خود تک رکھیں اور فیصلے کا انتظار کریں، جس نے جو برا بھلا کہنا تھا کہہ دیا، سڑکوں پر جو ہونا تھا ہو چکا، اب عدالتی فیصلے کا انتظار کریں۔

جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے سماعت کے دوران وزیراعظم کی قومی اسمبلی کے فلور پر کی گئی تقریر کی حیثیت اور وزیراعظم کے وکیل کے جانب سے استحقاق کے مطالبے پر بات کی۔

ایڈووکیٹ توفیق آصف نے پاناما کیس پر ہونے والے ٹیلی ویژن پروگراموں اور مباحثوں پر پابندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کا کہ گزشتہ سماعت کے سوالات سے میڈیا کو یہ تاثر ملا کہ جیسے عدالت کیس کا فیصلہ کر چکی ہے۔

جس پر جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ ہم سوالات صرف سمجھنے کے لیے پوچھتے ہیں، یہ سوالات فیصلہ نہیں ہوتے، انہوں نے استفسار کیا کہ کیا وزیراعظم کی تقریر پارلیمانی کارروائی کا حصہ تھی؟

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کی تقریرکو 'اعتراف' قرار دینے پر عدالت کا اعتراض

جس پر جماعت اسلامی کے وکیل کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی تقریر اسمبلی کے ایجنڈے کا حصہ نہیں تھی جبکہ استحقاق آئین اور قانون کے مطابق ہی دیا جا سکتا ہے۔

توفیق آصف نے عدالت کو بتایا کہ منگل کو قومی اسمبلی میں پرائیویٹ ممبر ڈے کی کارروائی ہوتی ہے جس پر جسٹس عظمت سعید نے ان سے سوال کیا کہ کیا اسپیکر کے پاس اختیار نہیں کہ وہ قوانین کو معطل کرکے کوئی اور کارروائی کرے؟ ساتھ ہی انہوں نے یہ سوال بھی کیا کہ کیا اسپیکر نے وزیراعظم کو تقریر کی اجازت نہیں دی تھی؟

ایڈووکیٹ توفیق آصف کا کہنا تھا کہ اگر وزیراعظم نے ذاتی وضاحت دینی تھی تو ایجنڈے میں شامل ہونا ضروری تھا۔

جس پر عدالت نے ان سے سوال کیا کہ کیا وزیراعظم کی تقریر پر کسی نے اعتراض کیا تھا؟

توفیق ناصر نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعظم کی تقریر کے بعد اپوزیشن نے ایوان سے واک آؤٹ کیا تھا۔

جسٹس عظمت سعید نے جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف کو تجویز دی کہ وہ آرٹیکل 69 پڑھیں اور اس پر دلائل دیں کیونکہ اس معاملے کو آرٹیکل 69 مکمل کر رہا ہے۔

توفیق ناصر کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کی تقریر ذاتی الزامات کے جواب میں تھی اور یہ آرٹیکل 69 کے زمرے میں نہیں آتی۔

اس موقع پر جسٹس گلزار نے استفسار کیا کہ کیا وزیراعظم کی تقریر ریکارڈ سے حذف کی گئی تھی؟

مزید پڑھیں: پاناما کیس: 'معاملہ وزیراعظم کی اہلیت کا ہے'

جس کے جواب میں توفیق آصف نے بتایا کہ تقریر اسمبلی کی کارروائی کا حصہ ضرور ہے مگر اس کو استحقاق حاصل نہیں، کیونکہ وزیراعظم نے اسمبلی میں تقریر پیر کے روز کی اور اسپیکر منگل کے روز قواعد معطل کر سکتا ہے۔

جس پر جسٹس شیخ عظمت نے تبصرہ کیا کہ جس دن گوشت کا ناغہ ہوتا ہے کیا اس دن تقریر نہیں ہو سکتی؟

دلائل کے دوران جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے پارلیمانی استحقاق سے متعلق آسٹریلوی دانشور کا آرٹیکل بھی پیش کیا۔

جس پر جسٹس شیخ عظمت نے ان سے سوال کیا کہ کیا یہ کوئی بریگزیٹ کی دستاویز ہے جو ہمیں پیش کی گئی؟

اس موقع پر جماعت اسلامی کے وکیل نے وزیراعظم کی تقریر کا ریکارڈ اسپیکر سے طلب کرنے کی استدعا کی۔

عدالت نے وکیل سے سوال کیا کہ کیا عمران خان نے تقریر کا جو متن لگایا وہ غلط ہے؟ اور جب تقریر کے متن سے کسی فریق کا اختلاف نہیں تو ریکارڈ کیوں منگوایا جائے؟

جس پر توفیق آصف کا کہنا تھا کہ ممکن ہے ترجمہ کرتے وقت کوئی غلطی ہو گئی ہو، یہ تقریر کیس کا اہم ثبوت ہے۔

جسٹس شیخ عظمت سعید کا کہنا تھا کہ کیا ہم یہاں شواہد ریکارڈ کررہے ہیں جس پر وکیل نے جواب دیا کہ عدالت چاہے تو شواہد ریکارڈ کر سکتی ہے۔

توفیق ناصر نے عدالت کو بتایا کہ پارلیمانی استثنیٰ صرف قانون سازی کے عمل کو حاصل ہے جس پر جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ آپ خود اپنی پٹیشن کی مخالفت کر رہے ہیں۔

وکیل جماعت اسلامی نے عدالت پر الزام لگایا کہ وزیراعظم پہلے کہتے تھے کہ ہر چیز واضح کرنا چاہتے ہیں مگر عدالت آنے کے بعد سب کچھ بدل گیا، وزیراعظم نے اپنا کیس وکیل سمیت بچوں سے الگ کردیا اور اب دستاویزات پیش کرنے کے بجائے استحقاق کے پیچھے چھپ رہے ہیں۔

لارجر بنچ کے سربراہ جسٹس آصف کھوسہ نے استفسار کیا کہ آپ عدالت کو بتادیں کہ وزیراعظم نے کیا کیا چھپایا ہے؟

وکیل جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے تقریر میں منی ٹریل پیش نہیں کیا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس موقع پر کہا کہ وزیراعظم کے وکیل نے کہا تھا کہ فلیٹ نواز شریف کے نہیں، اس لیے منی ٹریل نہیں دے سکتے، وزیراعظم کے وکیل نے ثبوتوں کا ذکر نہیں کیا اور قانونی نکات کا انبار لگا دیا۔

جسٹس عظمت سعید نے وکیل جماعت اسلامی کو کہا کہ لگتا ہے آپ باتیں دہرا کر سماعت میں تاخیر کرنا چاہتے ہیں اور عدالت سے کم جبکہ میڈیا سے زیادہ مخاطب لگتے ہیں۔

دوسری جانب دلائل کے دوران جسٹس آصف کھوسہ نے وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان سے استفسار کیا کہ کیا جماعت اسلامی کی درخواست پر وزیراعظم نے آپ کو کوئی ہدایت دی ہے؟

مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعظم بیرون ملک ہیں اور وہ آج واپس لوٹیں گے۔

جسٹس کھوسہ نے وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان کو ہدایت دی کہ جتنا جلدی ہوسکے وہ جماعت اسلامی کی درخواست پر جواب جمع کرائیں۔

سپریم کورٹ میں ایان علی کا تذکرہ

دلائل کے دوران ایک موقع پر جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے ماڈل ایان علی سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایان علی دربدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ عتیقہ اوڈھو اور ایان علی کو قومی اسمبلی تک رسائی ممکن نہیں۔

جس ہر جسٹس عظمت نے وکیل جماعت اسلامی کو کہا کہ وہ طے کرلیں کہ ایان علی کے وکیل ہیں یا عتیقہ اوڈھو کے؟

جس پر عدالت میں قہقہ گونج اٹھا۔

بعدازاں عدالت عظمیٰ نے جماعت اسلامی کے وکیل کو ہدایت کی کہ کل تک وہ اپنے دلائل مکمل کرلیں، جس کے بعد کیس کی سماعت کل بروز منگل (24 جنوری) تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

مریم نواز کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا مطالبہ

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فواد چوہدری نے وزارتِ داخلہ سے نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کا مطالبہ کردیا۔

سماعت میں وقفے کے دوران میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ جب 5 لاکھ ڈالر کی منی لانڈرنگ پر دو سال کے لیے ماڈل ایان علی کا نام ای سی ایل میں ڈالا جاسکتا ہے تو مریم نواز نے اربوں کی کرپشن کی ہے ان کا نام بھی ای سی ایل میں ڈالا جانا چاہیئے۔

یاد رہے کہ جمعہ (20 جنوری) کو ہونے والی کیس کی گزشتہ سماعت میں 5 رکنی لارجر بنچ نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا تھا کہ وزیراعظم کی 16 مئی کو پارلیمنٹ میں کی گئی تقریر ایجنڈے کا حصہ تھی یا نہیں اور کیا وزیراعظم کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ قومی اسمبلی میں اپنے خاندان کے کاروبار سے متعلق وضاحت پیش کریں۔

یہ بھی یاد رہے کہ 4 جنوری سے پاناما کیس پر درخواستوں کی سماعت سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں قائم نیا 5 رکنی لارجر بینچ کررہا ہے جس میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس اعجاز افضل، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس گلزار احمد شامل ہیں۔

پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)،جماعت اسلامی پاکستان (جے آئی پی)، عوامی مسلم لیگ (اے ایم ایل)، جمہوری وطن پارٹی (جے ڈبلیو پی) اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی تھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں