عباس ناصر ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر ہیں۔
عباس ناصر ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر ہیں۔

ذہن کو سن کر دینے والے اور روح کو تڑپا دینے والے سانحہ سہون نے کئی افراد کو نڈھال اور غمگین کردیا ہے کہ اب غم و غصے کے اظہار کی بھی ہمت نہیں بچی ہے۔ لال شہباز قلندر کے مزار کو محبت اور عقیدت میں آنے والے زائرین کے خون نے سرخ رنگ سے رنگ دیا۔ ایسا تو نہیں ہونا تھا۔

وہ تو دھمال ڈال رہے تھے، ایک عقیدتمندانہ رقص جو وہ وجدانی کیفیت میں محبت کے اظہار کے طور پر کرتے ہیں۔ مگر ہمارے محبوب مگر مرجھائے دیس میں یہ سب ایک حملے کو دعوت دینے کے لیے کافی تھا۔ میں اس حملے میں اپنے پیاروں کو کھو دینے والوں کے درد کا تصور کرنے کی بھی ہمت نہیں کر سکتا۔

اب جبکہ میں نے بیٹھ کر ہفتہ وار کالم لکھنے کی رسم ادا کرنے کی کوشش کی تو میرا بھی بہت ہی سادہ سا رد عمل تھا۔ لکھنے سے فائدہ کیا ہوگا؟ ہاں، آخر اس موضوع کو بار بار دہرانے سے کیا فائدہ جب کوئی بھی سن ہی نہ رہا ہو، جب آپ کی تجاویز پر کوئی غور کرنے والا ہی نہ ہو؟

یقین کریں، صرف میں ہی ایسا نہیں ہوں جس کے ذہن میں پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی کے حقیقی محرکات کے خلاف اقدامات میں ہچکچاہٹ دیکھ کر اس طرح کے سوال اٹھتے ہیں۔

میڈیا میں نظر آنے والا ذاتی مفاد اور حقائق کو مسخ کرنا، چاہے وہ حب الوطنی یا پھر عقیدے، یا دونوں کے نام پر ہو، میں بھی آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اصل خطرے سے خبردار کرنے والی اور تفصیلات بتانے والی آوازوں کی میڈیا میں کمی رہی ہے۔

جو لوگ غیر مقبول، کڑوا سچ بیان کر رہے ہیں ان پر اپنے پسندیدہ القاب یا لیبل — چاہے وہ 'غدار'، 'گستاخ'،یا پھر 'حقیقت سے فرار پسند سرپھرا' کا لقب ہو — لگانے کے بجائے کیا ہی بہتر ہوگا کہ ایک بار صرف ایک بار اس بات پر غور کر لیا جائے کہ آخر ان کی جانب سے کہا کیا جا رہا ہے۔

حقیقی علم تو کہیں اور موجود ہے، ہم میں سے کسی کے پاس موجود نہیں، پھر آپ کیوں پورا ہفتہ دیوانہ وار شور مچاتے ہیں؟ یہی وہ پیغام ہے جو لگتا ہے کہ ہمیں دیا جا رہا ہے۔ میں بھی چپ ہو جاتا اگر اس ٹائٹینک، چاہے اس کے راستے میں جو کچھ بھی حائل ہو، پر کوئی بھی سوار نہ ہوتا۔

آئیے میں آپ کو بتاتا ہوں کہ میں کیوں خاموش نہیں ہو سکتا اور کیوں کہنے کا ابھی بھی کوئی فائدہ ہو سکتا ہے۔ سہون سانحے کے بعد میرا دل پوری طرح سے غم میں ڈوب گیا اور جس وقت میڈیا (اور اسی جتنا زہریلا سوشل میڈیا بھی) دہشتگردوں کے سوائے ہر کسی پر الزام تراشی پر توجہ مرکوز کیے ہوا تھا، اس وقت میں نے ایسی بھی تصاویر دیکھیں جنہوں نے میرا ذہن کو ہی بدل دیا۔

کسی نے ان افراد کی تصاویر ٹوئیٹ کیں جو خون کے عطیات کی اپیلیں نشر ہونے کے بعد خون عطیہ کر رہے تھے۔ خون کا عطیہ کرنے والے سندھ کے ہسپتالوں میں بینچوں اور کرسیوں کو ساتھ ملا کر ان پر لیٹے ہوئے تھے اور کچھ افراد ویٹنگ رومز میں بیٹھے ہوئے تھے جبکہ ان کے بازؤں میں ٹیوب لگی ہوئی تھے اور بوتل ساتھ جڑی ہوئی تھی۔ لوگ وہاں ہجوم کی صورت میں پہنچے ہوئے تھے۔

دھمال کے دوران دھماکے کے نتیجے میں 100 کے قریب ہلاک شدگان اور سینکڑوں زخمیوں کے لیے خون کا عطیہ دینے کے لیے آنے والوں کو ہسپتالوں میں لالچ یا غصہ یا نفرت نہیں کھینچ لائی تھی، بلکہ وہ محبت تھی جو انہیں وہاں لے آئی تھی۔ وہ ایک خالص انسانیت کا جذبہ تھا۔

پھر میں نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی تصویریں دیکھیں جن میں وہ لاہور میں ہونے والے بم دھماکے میں ہلاک ہونے والے پنجاب پولیس کے کانسٹیبلز کے لواحقین کو خود چیکس دینے کے لیے آئے تھے۔ ایک تصویر میں ایک نوجوان ماں اپنی بانہوں میں ایک بچے کو تھامے ہوئے تھی اور اس کے چہرے پر آنسو بہہ رہے تھے۔

اگلی تصویر میں وزیر اعلیٰ ایک غمگین باپ کے ساتھ موجود تھے، ان کی سفید ہلکی داڑھی تھی، اور وہ غم سے جھکے ہوئے تھے۔ آئی ایس پی آر نے بھی تصاویر جاری کیں جس میں آرمی چیف لاہور ڈی آئی جی ٹریفک کے اہل خانہ کے پاس آئے تھے اور ان کی والدہ اور چھوٹی بیٹی سے اظہار تعزیت کر رہے تھے۔ ان کے غم کی برابری صرف ان کی صابرانہ عظمت ہی کر سکتی تھی۔

پھر کسی نے مجھے رواں ہفتے مہمند ایجنسی میں ہونے والے دھماکے میں ہلاک ہونے والے تین خاصہ داروں کے بارے میں لکھ بھیجا اور مجھے بتایا کہ یہ لوگ، دہشتگردوں کے خلاف اگلی صفوں پر کھڑے یہ بہادر لوگ تھوڑی سی تنخواہ پر کام کرتے ہیں؛ انہیں کسی قسم کی پینشن یا مراعات بھی حاصل نہیں ہیں۔ ان کے گھر والوں کو کم از کم مالی معاوضہ تو ادا کیا جانا چاہیے۔

بم ناکارہ بنانے کے دوران ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں مارے جانے والے دو پولیس اہلکاروں میں سے ایک کوئٹہ بم ڈسپوزل اسکواڈ (بی ڈی ایس) کے 'کمانڈر' عبدالرزاق بھی تھے۔ 'کمانڈر' کے بارے میں حقیقت ایکسپریس ٹربیون کی ایک خبر سے افشا ہوئی.

وہ درحقیقت ہیڈ کانسٹیبل تھے جنہیں ایک بار اے ایس آئی کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی، پھر کچھ وجوہات کی بنا پر جو کہ منظر عام پر نہ آسکیں، ان کی تنزلی کر دی گئی۔ خبر کے مطابق وہ اپنے 23 سالہ کریئر کے دوران کوئٹہ اور آس پاس کے علاقوں میں 500 کے قریب بم ناکارہ بنا چکے تھے۔

"ان کی دلیری اور بہادری پر انہیں 2007 میں پاکستان پولیس میڈل اور 2010 میں قائد اعظم میڈل سے نوازا گیا تھا۔ ان کے ایک پڑوسی ایڈووکیٹ زاہد ملک نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ بی ڈی ایس انتہائی حساس شعبہ ہے مگر رزاق کو جدید آلات فراہم نہیں کیے گئے تھے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ان کے پاس وردی تک نہیں تھی۔"

ایسے کئی دیگر اور بھی ہیں۔ میں دہشتگردی سے متاثر ہونے والے 50 ہزار سے زائد افراد کا حساب بھی نہیں لگا سکتا؛ میں ان ہزاروں فوجیوں، فوج کے افسران، نیم عسکری افواج اور پولیس اہلکاروں میں سے چند کے علاوہ نام بھی نہیں بتا سکتا جو سہون جیسے واقعوں سے ہمیں محفوظ رکھنے کی کوشش میں اپنی زندگی کھو چکے ہیں۔

ان کے پیارے جس کرب سے گزرے اور ابھی تک گزر رہے ہیں ان کے درد اور اس خلا کا تصور کرنا بھی مشکل ہے جو ایسے دہشتگردی کے واقعات سے ان کی زندگیوں میں پیدا ہوا ہے — اس چھوٹے بچے کا سوچیں جس نے لاہور میں اپنے والد کو کھو دیا، وہ کبھی یہ جان نہیں پائے گا کہ اس کے والد کیسے تھے اور نہ ہی وہ کبھی ان کی محبت اور شفقت کو محسوس نہیں کر پائے گا۔

ان ڈی آئی جی کے پیاروں کا کیا ہوگا کہ جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ اپنے ٹریفک وارڈنز پر جتنی زیادہ سختی کرتے تھے اتنا ہی ان کا والد کی طرح خیال بھی رکھتے تھے؛ بی ڈی ایس کے اس کمانڈر کے بہن بھائیوں اور بھانجے بھانجیوں کا سوچا ہے جن کے ساتھی انہیں "استاد" کہہ کر پکارتے تھے۔ انہوں نے شادی بھی اسی لیے نہیں کی تھی کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ کبھی بم ناکارہ بناتے ہوئے ان کی جان بھی جاسکتی ہے۔ ان کا یہ خدشہ درست ثابت ہوا۔

جس طرح نوجوان، بہادر، انتھک حقوق کے سرگرم کارکن جبران ناصرنے مجھے بتایا — ثابت قدم رہنے کی 20 کروڑ وجوہات ہیں۔ نہ صرف ان سب ناموں کے لیے، بلکہ ہمیں اپنی خاطر، اپنی ہوش مندی کی خاطر درست کام جاری رکھنے کے لیے ہمیں کسی نہ کسی طرح جرات و ہمت کی ضرورت ہوگی۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 18 فروری 2017 میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں