پاکستانی خواتین کی رگبی ٹیم نے گزشتہ ہفتے کے آخر میں لاؤس میں ہونے والے ٹورنامنٹ ایشین ویمنز رگبی سیونز میں ایک کامیابی حاصل کرکے عالمی رگبی میں شرکت کرکے ایک نئی تاریخ رقم کرنے کے امکانات روشن کردیے ہیں۔

پاکستان کی خواتین کی رگبی ٹیم کی بنیاد گزشتہ سال رکھی گئی تھی اور اس وقت یہ ایک خواب کی مانند تھا کہ رگبی کے عالمی مقابلے میں پاکستان کی خواتین بھی شرکت کریں گے۔

پاکستانی کھلاڑی مہرو خان کا کہنا تھا کہ 'یہ ہرکسی کے لیے ایک بڑی بات ہے کہ خواتین رگبی کھیل رہی ہیں اور ہمیں سامنے آکر اپنے ملک کی نمائندگی کا موقع مل رہا ہے'۔

پاکستان کے طول وعرض میں کرکٹ کا چرچا ہے جس کے علاوہ کوئی اور کھیل اس قدر مقبولیت حاصل نہیں کرپایا جبکہ کلچر اور دیگر مشکلات کےباعث خواتین اکثر کھیلوں میں حصہ نہیں لیتی ہیں اور بالخصوص رگبی جیسے کھیل کی حوصلہ افزائی کافی مشکل ہوتی ہے۔

پاکستان میں گزشتہ سال جب خواتین کی رگبی ٹیم کی بنیاد رکھی جارہی تھی تو اس وقت پاکستان رگبی کے حکام نے اسکول کے اساتذہ اور طلبہ کھیل میں حصہ لینے کی حوصلہ افزائی کی تھی جس کا بھرپور جواب ملا تھا۔

فائزہ محمد مرزا کا کہنا تھا کہ 'پاکستان میں رگبی جیسے کھیل کو اپنانا اسی طرح ہے جیسے معاشرے کے خول سے باہر نکل آتے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم یہاں پر ہیں کیونکہ میں سمجھتی ہوں کہ ہم تبدیلی لارہے ہیں، ہم وہ ہیں جو دوسری لڑکیوں کے لیے مثال بننے جارہی ہیں'۔

پاکستانی ٹیم ایشین ویمنز رگبی سیونز میں صرف ایک جیت کے ساتھ نیپال سے آگے تھی جبکہ سات ملکی ٹونامنٹ میں جنوبی کوریا، ہندوستان، ملائیشیا، فلپائن اور میزبان لاؤس کی ٹیمیں شامل تھیں۔

قومی ٹیم کو اس ٹورنامنٹ میں ہندوستان سے 0-5 کے اسکور سے شکست ہوئی تھی۔

واضح رہے کہ پاکستان رگبی نے تین سال قبل ورلڈ رگبی کے تعاون سے شروع ہونے والے پروگرام کے تحت ملک میں اب تک 50 ہزار سے زائد کھلاڑیوں کو تربیت دی ہے جن میں سے ایک تہائی تعداد خواتین یا لڑکیوں کی ہے۔

پاکستانی ٹیم کے کوچ شکیل احمد کا کہنا تھا کہ 'ہم پاکستان میں خواتین رگبی کے بہترین ماحول کی تشکیل کے لیے سنجیدہ ہیں اور ہمارا مختلف اداروں سے معاہدہ ہے'۔

تبصرے (0) بند ہیں