اسلام آباد : حکومت نے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے لیے آئین میں ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش کردیا۔

قومی اسمبلی میں اس سے پہلے آئین میں ترامیم کے 6 بل پیش کیے جاچکے ہیں، جو تاحال منظور نہیں ہوئے، اگر یہ بل منظور ہوگیا تو یہ ایوان سے پاس ہونے والا 23 واں آئینی بل بن جائے گا، جب کہ اس بل کی منظوری کے لیے لازمی ہے کہ آرمی ایکٹ ترمیمی بل بھی منطور کیا جائے، جس کے ذریعےفوجی عدالتوں کی مدت میں 2 سال توسیع ہو جائے گی۔

خیال رہے کہ فوجی عدالتوں کی مدت میں 2 سالہ توسیع کا بل ملک کی اہم بڑی سیاسی جماعتوں کے اتفاق کے بعد پیش کیا گیا، جب کہ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے حوالے سے حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ( پی پی پی) نے تاحال رضامندی ظاہر نہیں کی۔

پاکستان آرمی ایکٹ 1952 میں ترمیم کے بل کے متن کے مطابق آرمی ایکٹ کی روشنی میں اپنائے گئے خصوصی اقدامات مزید 2 سال کے لیے جاری رکھے جائیں۔

بل میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردوں اور مسلح گروپوں کی جانب سے ملکی سالمیت کو اب بھی سنگین خطرات لاحق ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: فوجی عدالتوں کی مدت:پیپلز پارٹی کی رضامندی کا حکومتی دعویٰ مسترد

بل کے مطابق پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھانے، فوجی تنصیبات پر حملے کرنے، مسلح افواج، قانون نافذ کرنے والے اداروں، عدلیہ، سرکاری ملازمین یا شہریوں پر حملہ کرنے والے ملزمان کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں کے ذریعے کیا جائے گا۔

مذہب کے نام پر دہشت گردی سے متعلق شق میں بھی ترمیم تجویز پیش کی گئی ہے اور مذہب یا فرقے کے نام پر دہشت گردی کے مرتکب شخص کا مقدمہ بھی فوجی عدالت میں چلے گا۔

بل کی منظوری کی صورت میں اس کا اطلاق 7 جنوری 2017 سے ہو گا۔

بل کی 2 سالہ مدت ختم ہوجانے کے بعد فوجی عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات انسداد دہشتگردی کی عدالتوں کو منتقل ہو جائیں گے۔

فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے لیے حکومت کی جانب سے پیش کردہ آئینی ترمیم کے متن میں کہا گیا کہ 21 ویں آئینی ترمیم 7 جنوری 2015 کو نافذالعمل ہوئی، جو 2 سال بعد 6 جنوری 2017 کو منسوخ ہوئی۔

آئینی ترمیم کے مسودے میں کہا گیا کہ ملک میں اب بھی غیر معمولی واقعات اور حالات رونما ہو رہے ہیں، اس لیے حالات کا تقاضہ ہے کہ دہشت گردی اور پاکستان کے خلاف جنگ یا بغاوت سے متعلق جرائم کی فوری سماعت کے اقدامات کیے جائیں۔

اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے حکومت کی جانب سے پیش کردہ دونوں مسودوں کو مزید مشاورت اور ان کو حتمی شکل دینے کے لیے یہ بل پارلیمانی رہنمائوں کی خصوصی کمیٹی کو دوبارہ بھیج دئیے۔

اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے ہدایات جاری کیں کہ پارلیمانی رہنمائوں کی کمیٹی مزید مشاورت کے بعد مسودوں کو حتمی شکل دے۔

مزید پڑھیں: پیپلز پارٹی فوجی عدالتوں کی 2 سالہ توسیع پر رضامند: وزیر قانون

اسپیکر نے تمام جماعتوں کو یقین دہائی کرواتے ہوئے کہا کہ بل پیش ہونے کے بعد تمام جماعتوں کے تحفظات سنے جائیں گے،جب کہ پارلیمانی کمیٹی دوبارہ بیٹھ کر اس حوالے سے اتفاق رائے قائم کرے گی۔

خیال رہے کہ فوجی عدالتوں کی مدت میں 2 سالہ توسیع پر پیپلز پارٹی کے سوا دیگر تمام بڑی اہم سیاسی جماعتیں 28 فروری کو متفق ہوچکی ہیں، جب کہ پیپلز پارٹی نے تاحال اس حوالے سے رضامندی ظاہر نہیں کی۔

گزشتہ روز 9 مارچ کو پارلیمانی کمیٹی کے ہونے والے اجلاس کے بعد حکومت اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے دعویٰ کیا کہ پیپلز پارٹی نے بھی فوجی عدالتوں کی مدت میں 2 سالہ توسیع پر اتفاق کیا ہے، مگر بعد ازاں پی پی پی نے حکومتی دعووں کو مسترد کردیا۔

ترجمان پاکستان پیپلز پارٹی فرحت اللہ بابر نے اپنے بیان میں کہا کہ پیپلز پارٹی اپنی تجاویز سے دستبردار نہیں ہوئی اور نہ ہی حکومت کے قانونی مسودے سے اتفاق کرتی ہے۔

خیال رہے کہ فوجی عدالتوں کی 2 سالہ خصوصی مدت رواں برس 7 جنوری کو ختم ہوگئی تھی،عدالتوں کا قیام 7 جنوری 2015 کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بل کی منظوری کے بعد عمل میں لایا گیا۔

گزشتہ 3 ماہ کے دوران فوجی عدالتوں کی دوبارہ بحالی سے متعلق حکومت اور اپوزیشن جماعتوں میں متعدد بار مذاکرات ہوئے، جن میں فوجی عدالتوں کی دوبارہ بحالی پر اتفاق نہیں کیا جاسکا۔

تبصرے (0) بند ہیں