مقبوضہ کشمیر کی مرکزی ہائی وے پر شہریوں کی آمد ورفت پر ہفتے میں دو دن کی پابندی

اپ ڈیٹ 07 اپريل 2019
احکامات کے مطابق عام انتخابات کے پیش نظر ہائی وے پر سیکیورٹی فورسز کی نقل و حرکت پر ممکنہ حملوں کو روکنا ہے۔ — فوٹو: اے پی
احکامات کے مطابق عام انتخابات کے پیش نظر ہائی وے پر سیکیورٹی فورسز کی نقل و حرکت پر ممکنہ حملوں کو روکنا ہے۔ — فوٹو: اے پی

بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی مرکزی ہائی وے کو فوج اور پیراملٹری دستوں کی آمد و رفت کے لیے کھلا رکھنے کی غرض سے شہریوں کو وہاں سے گزرنے پر ہفتے میں دو دن کی پابندی عائد کردی۔

خبرایجنسی اے پی کی رپورٹ کے مطابق آج سے عائد ہونے والی پابندی کے پیش نظر فوجی اہلکاروں نے ہائی وے پر پیٹرولنگ کرتے ہوئے اس کے انٹرسیکشنز اور متصل سڑکوں کو باڑ لگا کر بند کردیا ہے۔

بھارتی حکومت نے یہ احکامات گزشتہ ہفتے جاری کیے تھے جس کے تحت 270 کلومیٹر کی ہائی وے کو مئی کے آخر تک حکومتی فورسز کی گاڑیوں کے لیے مخصوص کرتے ہوئے اتوار کو بدھ کو شہریوں کی آمد ورفت پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔

واضح رہے کہ یہ احکامات 14 فروری کو کشمیر کے علاقے پلوامہ میں ہونے والے بھارتی پیراملٹری فورس کے وفد پر ہونے والے خودکش حملے کے بعد سامنے آئے تھے جہاں بھارتی فوج کے 40 سے زائد اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔

حملے کے بعد ہائی وے پر فوجی نقل و حرکت کے دوران شہری ٹریفک پر پہلے ہی پابندی عائد کردی گئی تھی۔

احکامات میں کہا گیا ہے کہ اس پابندی کا مقصد عام انتخابات کے پیش نظر قومی ہائی وے پر سیکیورٹی فورسز کی بڑی تعداد میں نقل و حرکت کے سبب بھارت مخالف جنگجوؤں کی جانب سے حملوں کو روکنا ہے۔

واضح رہے کہ کشمیر کی وادی کو بھارتی سر زمین سے جوڑنے کا واحد راستہ یہ ہائی وے ہے اور اس کا زیادہ تر حصہ پہاڑی علاقے اور جنگلات سے گزرتا ہے۔

بھارت کے زیر تسلط کشمیر کے اس روڈ کو حال ہی میں مزید کشادہ کرتے ہوئے 4 لین کا بنایا جارہا ہے جو سردیوں اور موسم کی خرابی کے باعث بعض اوقات بند رہتا ہے۔

مقبوضہ وادی کے سیاست دانوں، کاروباری افراد اور عام شہریوں کی جانب سے اس پابندی پر سخت تنقید کی گئی تھی۔

نریندر مودی کی سابق اتحادی اور مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ٹوئٹر پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’اس سے قبل جہاں تک مجھے معلوم ہے ہم جمہوری تھے لیکن یہ مارشل لا کی طرح لگ رہا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کشمیر کو اس دہانے تک پہنچانے کے بعد انتظامیہ کشمیریوں کو مجموعی سطح پر سزا کو یقینی بنانا چاہ رہی ہے‘۔

خیال رہے کہ کشمیری عوام بھارتی قبضے کے خلاف 1989 سے برسر پیکار ہیں جہاں زیادہ تر عوام کا پاکستان سے الحاق یا خودمختار ریاست بنانے کا مطالبہ ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں جولائی 2016 میں نوجوان حریت رہنما مظفر وانی کی شہادت کے بعد آزادی کی تحریک میں مزید تیزی آئی اور بھارتی فوج نے بھی پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ کیا۔

بھارت کی جانب سے 1989 میں شروع کی گئیں ظالمانہ کارروائیوں سے اب تک 70 ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں اور لاکھوں کشمیری زخمی ہوچکے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں