تھر میں کوئلے کے بجلی گھروں کی آلودگی سے 29 ہزار اموات ہوسکتی ہیں، تحقیق

اپ ڈیٹ 30 مئ 2020
تھر پارکر میں کوئلے کی ایک کھلی کان—فائل فوٹو: ڈان
تھر پارکر میں کوئلے کی ایک کھلی کان—فائل فوٹو: ڈان

کراچی: ایک آزادانہ تحقیقات کرنے والے ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ تھر میں موجود کوئلے کے پاور پلانٹ کی 30سالہ آپریشنل مدت کے دوران 29 ہزار افراد فضائی آلودگی سے ہلاک ہوسکتے ہیں۔

قبل ازیں عالمی ادارہ صحت نے کہا تھا کہ کہ تھر کے صحرا میں موجود کوئلے کے پاور پلانٹس حفاظتی حدود سے تجاوز کرنے والی زہریلی گیسوں سے ایک لاکھ افراد کو متاثر کرسکتے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینٹر فار ریسرچ آن انرجی اینڈ کلین ایئر(سی آر ای اے) کی جانب سے آن لائن جاری کردہ پریزینٹیشن میں خود کو ’موجودہ رجحانات، صحت پر پڑنے والے اثرات کے ساتھ ساتھ فضائی آلودگی پر آزادانہ تحقیقات کرنے والا ادارہ کہا‘۔

یہ بھی پڑھیں: کوئلے کا لولی پاپ

رپورٹ کا عنوان ہے ’پاکستان کے تھر میں مجوزہ کوئلے کی کان کنی اور پاور پلانٹس کے فضائی معیار، صحت پر زہریلے اثرات‘۔

خیال رہے کہ 6 ہزار میگا واٹ سے زائد کے کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر ملک میں ترقی کے مختلف مراحل میں ہیں جس میں سے 3 ہزار 700 میگا واٹ کے پلانٹ صحرائے تھر میں ہیں۔

رپورٹ کے مطابق 660 میگا واٹ کی صلاحیت والا ایک پلانٹ فعال ہوسکتا ہے لیکن مجوزہ پلانٹس جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ مرکری (پارے) اور کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کے اخراج والے مقامات بن جائیں گے‘۔

ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ فضا میں سلفر ڈائی آکسائیڈ (SO2) کی خطرناک مقدار سے نہ صرف ایک لاکھ افراد متاثر ہوں گے بلکہ آلودگی کے باعث 29 ہزار اموات بھی ہوسکتی ہے اس کے علاوہ یہ پاور پلانٹس صحت سے متعلق پیچیدگیوں کا موجب بنیں گے۔

مزید پڑھیں: تھر کا کالا سونا

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ’صحت پر پڑنے والے دیگر اثرات میں دمے کے باعث 40 ہزار مرتبہ ہنگامی طبی امداد کے لیے جانا، بچوں میں دمے کے 19 ہزار 900 کیسز، 32 ہزار قبل از وقت ولادتیں، 2 کروڑ دن کام سے غیر حاضری (بیماری کی چھٹی) اور 57 ہزار سال تک پھیپھڑوں اور سانس کی تکالیف، ذیابیطس اور دماغ کی رگ پھٹ جانے جیسے مسائل کے ساتھ زندگی گزارنا شامل ہے'۔

اس کے علاوہ یہ پاور پلانٹس سالانہ 1400 کلو گرام پارے کا اخراج کریں گے ’جس کا پانچواں حصہ خطے کے زمینی ماحول میں جمع ہوجائے گا‘۔

اس میں زیادہ تر ذخیرہ زمینی فصلوں میں ہوگا اور غذائی سلسلوں میں پارے کی مقدار میں اضافہ ہوجائے گا۔

واضح رہے کہ گزشتہ 3 سال کے عرصے کے دوران پاکستان میں 8 کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر لگائے گئے جبکہ ایک چھوٹا بجلی گھر 1995 سے فعال ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کیا تھر آئندہ 10 برس میں دبئی بننے والا ہے؟

محقق نے فضائی معیار کو سنجیدہ لینے کے حوالے سے صوبہ سندھ کے پہلے سے ناقص ریکارڈ کی بھی نشاندہی کی کہ جہاں بڑی تعداد میں کوئلے سے چلنے والی صلاحیتوں کا بڑا حصہ قائم ہونے والا ہے۔

تبصرے (2) بند ہیں

Azhar Hussain May 30, 2020 02:46pm
Please, share the report. We can compare these findings with experimental one
moazzamsaleem May 31, 2020 07:01pm
Kon Fazai aloudgi nahi kar raha hai, Safety ke sath istamal karee, dunia kee tarqee yafta mulk aj bhi coal sai electricity generate kar rahee hain, Aur thar main abadee hee kitnee hai.