گزشتہ بائیس سال سے تھر کے لوگوں کو خواب دکھائے جا رہے ہیں کہ اس ریگستان میں 175 ارب ٹن اعلیٰ معیار کا کوئلہ موجود ہے، یہ مقدار دو بڑے تیل پیدا کرنے والے ممالک سعودی عرب اور ایران کے تیل کے مشترکہ ذخائر کے برابر ہے۔

دعوے یہ بھی کیے جاتے ہیں کہ اس کالے سونے کے استعمال سے دو سو سال تک ایک لاکھ میگاواٹ بجلی سالانہ پیدا کی جاسکتی ہے۔ لیکن ہر مرتبہ یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوتے ہوتے رہ جاتا ہے۔ کبھی تیل کی لابی، تو کبھی کالاباغ ڈیم کے حامی، تو کبھی وفاق اور صوبائی حکومت کے درمیان تنازع یا پھر رقم کی عدم موجودگی آڑے آجاتی ہے۔

کالے سونے کے ذخائر نکالنا تھر کے لوگوں کے لیے بادلوں کی طرح ہوگئے ہیں جو ہر مرتبہ آتے تو ہیں مگر برستے نہیں۔ جیسے ہر مرتبہ لوگ بارش کے لیے آسمان میں آنکھیں گاڑے بیٹھے رہتے ہیں اسی طرح لوگ حکومت کے اعلان سنتے رہتے ہیں۔

بینظیر بھٹو نے 1994 میں تھاریو ہالے پوٹو کے قریب تھر کول فیلڈ کا افتتاح کیا اور اس کوئلے سے سمندر کے کنارے کیٹی بندر کے پاس بجلی گھر قائم کرنے کا اعلان کیا، مگر نواز شریف نے حکومت میں آکر اس منصوبے کو سرد خانے میں ڈال دیا۔

جنرل مشرف نے بجلی کے بحران اور بعض دیگر وجوہات کی بنا پر تھر کے کوئلے میں ہاتھ ڈالا۔ کوئلے کا منصوبہ شروع کرنے کے لیے اپنی ہی سربراہی میں ٹاسک فورس بنائی۔ مگر بیل منڈھے نہیں چڑھی۔

پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں جوہری تونائی کے ماہر ڈاکٹر ثمر مبارک کرشمے کا دعویٰ کر کے میدان میں آئے کہ وہ زیر زمین ہی کوئلے کو گیس میں تبدیل کرنے کی ترکیب سے پائلٹ پروجیکٹ شروع کریں گے۔ ان کے وعدے کے تین سال 2013 میں مکمل ہوگئے لیکن یہ پائلٹ پروجیکٹ بھی عمل میں نہیں آسکا۔ ان کا شکوہ ہے کہ ایک ارب روپے کی ضرورت ہے جو نہ وفاقی حکومت دے رہی ہے اور نہ ہی سندھ حکومت۔

وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کئی مرتبہ تھر کوئلے کو یاد کیا۔ لیکن کوئی عملی شکل نہیں نکال سکے۔ ان کے بعد آنے والے پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم راجا پرویز اشرف نے بھی تھر فیلڈ کا دورہ کیا اور ایک مرتبہ پھر تھر کے لوگوں کو آسرا دیا۔ مگر نیتجہ صفر رہا۔ وجوہات نامعلوم ہی رہیں کہ آخر یہ پروجیکٹ کیوں شروع نہیں کیا جاسکا۔

اب نواز شریف 31 جنوری کو کوئلہ نکالنے اور اس سے بجلی گھر بنانے کا افتتاح کرنے جا رہے ہیں۔ آج تھر کا کوئلہ دوبارہ یاد آنے کے محرکات یہ ہیں؛

  1. زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی اور تیل سے پیدا کی جانے والی بجلی کی مہنگائی کے باعث حکومت کے پاس کوئلے کا آپشن اپنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

  2. پنجاب 2009 سے کوئلے سے بجلی تیار کرنے کے چھ بجلی گھروں پر ہوم ورک کر رہا تھا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے حالیہ بیان کے مطابق اب ان پر کام شروع کیا جا چکا ہے اور چینی اور جرمن کمپنیوں سے معاہدے کئے جارہے ہیں۔ پنجاب اپنے سالٹ رینج سے کوئلہ نکالنے کیساتھ ساتھ بلوچستان کے چمالنگ کے مقام سے روزانہ 2400 ٹن کوئلہ حاصل کرنے کا معاہدہ کرچکا ہے۔ جس سے پنجاب میں چھ بجلی گھر چلائے جائیں گے۔

  3. گڈانی میں کوئلے پر چلنے والے دس بجلی گھر بنانے کے لیے قطر اور چین سے معاہدے ہو چکے ہیں۔ یہ بجلی گھر پنجاب حکومت قائم کر رہی ہے جن میں درآمد شدہ کوئلہ استعمال کیا جائے گا۔

  4. ایشین ترقیاتی بینک پرانے بجلی گھر کوئلے پر شفٹ کرنے کے لیے بھی بھاری رقم فراہم کر رہا ہے۔

ملک میں ڈیڑھ درجن بجلی گھر کوئلے پر بنائے جارہے تھے۔ یعنی تھر کا کوئلہ استعمال نہیں کیا گیا۔ یہ تمام بجلی گھر درآمد شدہ کوئلے پر ہی بنائے جارہے تھے۔ اس پر کئی سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ سندھ کو وفاقی حکومت کی جانب سے نظر انداز کرنے کی شکایت ہے۔ جبکہ سندھ حکومت بھی زیر تنقید آئی کہ وہ کچھ نہیں کررہی۔

یہ ہے وہ پس منظر جس میں ایک بار پھر تھر کے لوگوں کے خواب زندہ کیے گئے ہیں اور سندھ حکومت اکتیس جنوری کو وزیر اعظم نواز شریف اور آصف زرداری کو تھاریو ہالے پوٹو لے کر جارہی ہے۔

نواز شریف پر سندھ میں یہ بھی سخت تنقید ہوتی رہی ہے کہ 90 کی دہائی میں انہوں نے کیٹی بندر، تھر کول سمیت سندھ کے بعض ترقیاتی منصوبے منسوخ کردیئے تھے۔ ان کے لیے یہ سنہری موقعہ تھا کہ وہ یہ تنقید دھو ڈالیں۔ تو وہ تھر کول کو استعمال کرنے کے پروجیکٹ کا افتتاح کرنے جارہے ہیں: یعنی 'رند کے رند رہے ہاتں سے جنت نہ گئی'۔

تھر کے لوگوں کو ابھی تک یقین نہیں کہ اس پروجیکٹ پر واقعی عمل ہوگا۔ تھر کول بھی کالاباغ ڈیم کی طرح ہوگیا ہے۔ جس پر ہر فریق سیاست کر رہا ہے۔ کسی کو لالچ، کسی کو آسرا تو کسی کو خواب اور کسی کو اس سے ڈرایا جارہا ہے۔

تھر کول پروجیکٹ حوالے سے کئی کہانیاں ہیں۔ قومی اہمیت کا حامل پروجیکٹ ہونے کی وجہ سے وفاقی حکومت نے 60 فیصد رقم فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ اس کے ساتھ سرمایہ کاروں کو مطلوبہ گارنٹی بھی دینے کا فیصلہ کیا تھا مگر دونوں لوازمات کبھی بھی پورے نہیں کئے گئے۔

ستم ظریفی یہ کہ پیپلز پارٹی پانچ سال حکومت میں رہی لیکن اس نے بھی نہ مطلوبہ رقم فراہم کی اور نہ ہی گارنٹی دی۔ چینی کمپنی نے برسوں تک کام کرنے کے بعد بجلی کا نرخ دیا وہ بھی سرسری طور پر مسترد کردیا گیا۔ حالانکہ یہ نرخ آج کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے کوئی زیادہ نہیں تھا۔ حالانکہ آج ہم تین اور چار گنا زیادہ نرخ ادا کر رہے ہیں۔

کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن اپنا ایک بجلی گھر کوئلے پر شفٹ کرنا چاہتی ہے۔ اس مقصد کے لیے بن قاسم پورٹ پر ایک نئی جیٹی بھی تعمیر کی جارہی ہے۔ سندھ حکومت میں اتنی بھی دوراندیشی کہ وہ کے ای ایس سی اور گڈانی میں زیر تعمیر دس بجلی گھروں کو پابند بنائے کہ وہ درآمد شدہ کوئلے کے بجائے تھر کا کوئلہ استعمال کریں۔ یوں امپورٹ پر خرچ ہونے والی بڑی رقم بچ جائے گی۔ اور پیدا ہونے والی بجلی کی لاگت بھی کم ہوگی۔

پروجیکٹ شروع ہونا اچھی بات ہے۔ کہا جارہا ہے کہ اس سے اس کے ساتھ ساتھ تھر کے لوگوں کو برسوں سے دکھائے جانے والے خواب کی حقیقت کیا ہے اس کا بھی پتہ لگے گا۔ تھر میں کوئلہ اوپن پٹ open pit کے ذریعے نکالا جائے گا۔ یعنی ایک وسیع علاقے میں تین سے چار سو فٹ تک کھدائی ہوگی۔ اس سے زیر زمین پانی کے ذخائر بری طرح سے متاثر ہونگے۔ درخت، پودے، پرندے اور مال مویشی کے لیے مطلوبہ ماحول ختم ہو جائے گا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ مویشی پالنا تھر کے لوگوں کا دوسرے نمبر پر ذریعہ روزگار ہے۔ اس کے علاوہ متاثرہ علاقے میں گھر، گاؤں، کھیت اور آسائشی زمین بھی متاثر ہوگی جو کہ یہاں کے غریب لوگوں کے جینے کے اہم وسائل ہیں۔

اس صورتحال کے باوجود متاثرہ لوگوں کی بحالی کے لیے کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی ہے جو کہ پوری دنیا میں تیل، گیس، کوئلے اور دیگر معدنیات کی کھدائی سے متاثر ہونے والے علاقوں میں بنائی جاتی ہے۔ ری سٹلمنٹ پالیسی بنانے کا ٹھیکہ ایک نجی کمپنی کو دیا گیا، جو کہ تین سال میں بھی یہ پالیسی نہیں بنا پائی ہے۔ کمپنی نے بعض سماعتیں کیں جن میں مجوزہ پالیسی کو لوگوں نے مسترد کردیا تھا۔

اب حکومت برطانوی راج کے قانون لینڈ اکیوزیشن ایکٹ مجریہ 1848 کے تحت لوگوں سے زمینیں لے رہی ہے۔ یہ سامراجیوں کا بنایا ہوا قانون ہے جس کا مرکز لوگ نہیں بلکہ زمین اور وسائل تھے۔

تھر کے لوگ کوئلہ نکالنے پر ناخوش نہیں۔ ان کی صرف اتنی عرض ہے کہ یہ زیر زمین وسائل ان کے ہیں اور وہ بھی اس قوم کا حصہ ہیں اور اس ملک کے شہری ہیں۔ ہر دوسرے سال قحط کی زد میں آنے والے لوگوں کو اور کہیں سے نہیں دے سکتے تو کم از کم انہیں اپنے وسائل میں تو حصہ دیا جائے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Mubassar Jan 30, 2014 07:47pm
The author appears to be exaggerating the reasons for which imported coal may have been considered for new power stations. Provincialism smells ('Punjab vs. Sindh') can be clearly seen and felt in the wording which has been used. Sindh coal is lignite (brown coal) while the newer power station are more suited to relatively 'cleaner' black coal for obvious reasons. This is a technical reason and is entirely irrelevant to Sindh people being ignored. Regardless regional environmental studies should be properly conducted for affected people if Sindh Lignite is to be mined. Also Sindh coal is probably not economically mine-able, otherwise Dr Mubarakmand would not still be asking for further resources after spending decades on this pipe dream.
انور امجد Feb 01, 2014 05:03am
@Mubassar: لگنائٹ کول زیادہ تر استعمال ہی اسٹیم پاور پلانٹ میں کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں کچھ نئے پاور پلانٹس میں درامد شدہ کوئلہ کا استعمال اسلئے کیا جا رہا ہے کہ ابھی تک تھر میں کانکنی شروع نہیں ہوئی ہے۔ یقینا بعد میں ان میں بھی ملکی کوئلہ استعمال کیا جائے گا۔