طبی ماہرین کافی عرصے سے فیس ماسک کو پہننے کی اہمیت پر زور دے رہے ہیں جس سے مریضوں سے صحت مند افراد تک کورونا وائرس کی منتقلی کا امکان کم ہوتا ہے مگر اب ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ فائدہ چہرے کو ڈھانپنے والے کو بھی ہوتا ہے۔

پاکستان سمیت متعدد ممالک میں فیس ماسک کا استعمال لازمی قرار دیا گیا ہے اور ایک تحقیق میں کہا گیا کہ اپنے چہرے کو ڈھانپنے والے افراد کے لیے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کا خطرہ 65 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔

یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

کیلیفورنیا یونیورسٹی کے ڈیوس چلڈرنز ہاسپٹل کے بچوں کے وبائی امراض کے شعبے کے سربراہ ڈین بلیومبرگ نے بتایا 'ہم نے تحقیق اور دیگر سائنسی شواہد سے بہت کچھ معلوم کیا اور اب ہم جانتے ہیں کہ نہ صرف فیس ماسک کو پہننے والے فرد سے دیگر تک وائرس کی منتقلی کا خطرہ کم ہوتا ہے بلکہ یہ فیس ماسک کو پہننے والے فرد کو بھی ایسیے افراد سے تحفظ فراہم کرتا ہے جو چہرے کو نہیں ڈھانپتے'۔

انہوں نے مزید کہا 'تو ماسک پہننے سے، ،چاہے وہ عام روایتی سرجیکل یا کپڑے کا ماسک ہی کیوں نہ ہو، اس فرد کے لیے کووڈ 19 کا خطرہ 65 فیصد تک کم ہوجاتا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ این 95 ماسک وائرس سے بچاؤ کے لیے اس سے بھی زیادہ بہتر کام کرتا ہے، مگر اس کی سپلائی محدود اور طبی عملے کو اس کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔

ڈین بلیومبرگ اور کیلیفورنیا یونیورسٹی ڈیوس کے کیمیکل انجنیئرنگ پروفیسر ولیم رسٹین پارٹ ایک کانفرنس کے دوران وائرس کی منتقلی پر بات کی۔

ولیم رسٹین پارٹ کی کیلیفورنیا یونیورسٹی میں موجود لیبارٹری میں اس بات پر تحقیق کی گئئی تھی کہ وائرس سے متاثر لوگ سانس لینے یا بات کرنے کے دوران کتنے چھوٹے ذرات خارج کرتے ہیں۔

دونوں پروفیسرز نے وائرس کی منتقلی کے 2 بنیادی طریقوں پر روشنی ڈالی۔

ان میں سے ایک طریقہ وہ ہے جب وائرس سے متاثر افراد ذرات کو منہ یا ناک سے خارج کرتا ہے جن کا حجم ایک انسانی بال کے ایک تہائی حصے کے برابر ہوتا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ فیس ماسک اس طرح کے ذرات کے خلاف موثر رکاوٹ ثابت ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہر ایک کو لازمی ماسک پہننا چاہیے، جو لوگ کہتے ہیں کہ انہیں ماسک کے موثر ہونے پر یقین نہیں، وہ سائنسی شواہد کو نظرانداز کرتے ہیں۔

وائرس کی منتقلی کا دوسرا طریقہ بات کرنے کے دوران خارج ہونے والے ایروسول (کسی مائع شے کے بہت چھوٹے قطرے یا ذرے) ذرات ہیں، جو انسانی بال کے 100 ویں حصے کے برابر ہوتے ہیں اور ان کے خلاف دفاع زیادہ مشکل ہوتا ہے، یہ ذرات کپڑے کے ماسکس کے خلا سے پار جاسکتے ہیں۔

ولیم رسٹین پارٹ کا کہنا تھا 'لیبارٹری میں کیے جانے والے تجربات سے ثابت ہوا کہ وائرس ایروسول ذرات کی شکل میں نیم مردہ حالت میں گھنٹوں تک زندہ رہ سکتا ہے، یہ ہوا میں موجود رہتا ہے، یہی وجہ ہے کہ گھر سے باہر جس حد تک ممکن ہو، جانا چاہیے، ہوا کا اچھا بہاؤ وائرس کو دور لے جاتا ہے، اگر چاردیواری کے اندر ہوں تو کھڑکیاں کھولنے کے بارے میں سوچیں، جس حد تک ممکن ہو تازہ ہوا کو یقینی بنائیں'۔

اس تحقیق سے قبل گزشتہ ماہ کینیڈا کی میکماسٹر یونیورسٹی کی تحقیق میں ایسے شواہد پیش کیے گئے جن میں کپڑے سے بنے عام فیس ماسکس کو کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے موثر قرار دیا گیا، خصوصاً ایسے ماسک جن میں سوتی کپڑے کی کئی تہیں استعمال کی گئی ہوں، جو وائرل ذرات کو ماحول میں پھیلنے سے روکنے میں مدد دیتی ہیں۔

درحقیقت محققین کا کہنا تھا کہ کپڑے کے ماسک نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کو پھیلنے سے روکنے میں موثر ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ وہ 99 فیصد وائرل ذرات کو بلاک کردیتے ہیں۔

طبی جریدے دی لانسیٹ میں 16 ممالک میں ہونے والی 172 تحقیقی رپورٹس کا تجزیہ کیا گیا جن میں سماجی دوری، فیس ماسکس کے استعمال اور آنکھوں کو ڈھانپنے سمیت وائرس کے پھیلنے کے خطرات کا جائزہ لیا گیا تھا۔

ان رپورٹس میں کووڈ 19 کے ساتھ ساتھ دیگر 2 کوورونا وائرسز کی وبائیں یعنی سارس اور مرس کا بھی جائزہ لیا گیا تھا۔

محققین نے کہا کہ ہم احتیاطی تدابیر کا اثر دیکھ کر دنگ رہ گئے، وبائی بیماریوں میں ہم اکثر معمولی اثرات دیکھتے ہیں، مگر اس میں ہم نے جو اثرات دیکھے وہ بڑے یا بہت زیادہ تھے۔

محققین کا کہنا تھا کہ لوگوں کے درمیان کپڑے سے بنے فیس ماسک کا استعمال موثر ثابت ہوسکتا ہے، جس سے نہ صرف متاثرہ فرد کی جانب سے وائرس کو آگے پھیلانے کا خطرہ ہوتا ہے بلکہ صحت مند لوگ بھی وائرس سے بچ سکتے ہیں۔

اس وقت دنیا بھر میں کورونا وائرس کے کم از کم 30 فیصد مریض ایسے ہوتے ہیں جن میں علامات سامنے نہیں آتیں اور اسی وجہ سے فیس ماسک کا استعمال صحت مند فرد کو اس وبا سے محفوظ رکھنے میں مدد دے سکتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں