پولیو ایسی موذی بیماری ہے جس کا وائرس کسی متاثرہ فرد کے فضلے سے آلودہ ہوجانے والے پانی یا خوراک میں موجود ہوتا ہے اور منہ کے ذریعے صحت مند افراد کے جسم میں داخل ہو سکتا ہے، جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ اس وقت کمزور ترین حالت میں ہوتا ہے اور دنیا کے ماحول سے واقف نہیں ہوتا، اس کے والدین اس کی دیکھ بھال کررہے ہوتے ہیں، ایسی صورتحال میں جسم میں داخل ہوکر وائرس کی تعداد کئی گنا بڑھ جاتی ہے اور وائرس متاثرہ بچے کے جسم سے ایسی جگہوں پر خارج ہوتا ہے جہاں سے با آسانی کسی دوسرے انسانی جسم میں داخل ہو جاتا ہے۔

نوزائیدہ بچوں میں اکثر وائرس منہ کے ذریعے داخل ہوتا ہے کیوں کہ انہیں جو خوراک دی جاتی ہے وہ چمچے یا فیڈرکے ذریعے دی جاتی اور اس صورت میں یہ اندیشہ رہتا ہے کہ صفائی کا خیال نہ رکھنے کی صورت میں خوراک کے ساتھ وائرس بھی ان کے جسم میں داخل ہوجائے۔

نومولود کے جسم میں اتنی قوت مدافعت نہیں ہوتی کہ وہ بیماریوں سے خود کو محفوظ رکھ سکے، جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ماحول کا عادی نہیں ہوتا اور اسے اضافی تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے۔

اسی لیے ویکسین آپ کے بچوں کے لیے انتہائی اہم ہے اور یہ بیماریوں سے تحفظ فراہم کرنے کا ایک آسان طریقہ کار ہے۔ ماہرین صحت یہ تجویز دیتے ہیں کہ عالمی طور پر تجویز کردہ پولیو ویکسین بچوں کو بروقت فراہم کی جانی چاہیے تاکہ بچوں کو اس موذی بیماری سے محفوظ رکھا جاسکے۔

یہ بھی پڑھیں: پولیو وائرس کی منتقلی: 4 اہم نکات جو وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ بنتے ہیں

عالمی ادارہ صحت ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ویکسین واحد آسان راستہ ہے جس کے ذریعے ہم اپنے بچوں کو موذی امراض کا شکار ہونے سے قبل محفوظ کرسکتے ہیں، ویکسین جسم میں ان بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت بڑھاتی ہے تاکہ نومولود بچوں کا جسم اس سے محفوظ رہ سکے۔

ویکسین ان بچوں کے جسم کو موذی قسم کی بیماریوں سے لڑنے کے لیے قدرتی طور پر تیار کرتی ہے، ویکسین میں بیشتر مرے ہوئے یا غیر مؤثر وائرس یا بیکٹیریا ہوتے ہیں اس لیے یہ بیماری کی وجہ نہیں ہوسکتے۔

اسی طرح پہلی غذائیت کے طور پر بچے کو ماں کا دودھ پلایا جانا چاہیے جو بچوں کی قوتِ مدافعت کے لیے اہم ہوتا ہے لیکن سائنسی تحقیق سے ثابت ہوجانے کے باوجود اکثر اس پر عمل نہیں کیا جارہا۔

بچوں کی قوت مدافعت میں اضافے کے لیے نومولود بچوں کو ویکسینز لگائی جاتی ہیں اور یہ جلد از جلد لگنی چاہئیں لہذا بچوں کو پولیو کی اورل ویکسین پلانی چاہیے اور 5 سال سے کم عمر بچوں کو لازمی طور پر پولیو کے قطرے پلانے چاہئیں تاکہ وہ اس وائرس سے محفوظ رہیں۔

مزید پڑھیں: پولیو وائرس کیسے حملہ کرتا ہے؟

ماہرین صحت کے مطابق پولیو کی ویکسین بچوں کی معمول کی ویکسینیشن کے دوران بھی لگائی جاتی ہے تاکہ ان کا مدافعتی نظام مضبوط ہو۔ اگر بچے ڈائیریا، ہیپاٹائٹس، خسرہ، کھالی کھانسی کا شکار ہوتے ہیں تو ان پر پولیو بھی حملہ کردیتا ہے جس کے نتیجے میں ان کی موت واقع ہوسکتی ہے، اس لیے بچوں کو ویکسین پلانی چاہیے اور اس میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔

پولیو ویکسین بچوں کے جسم میں اینٹی باڈیز پیدا کرتی ہے اور یہ بیماریوں کے خلاف قدرتی طور پر پیدا ہونے والے پروٹینز ہیں، ویکسین کی وجہ سے پیدا ہونے والا قدرتی مدافعت کا نظام وائرس کو یاد رکھتا ہے اور ان کے بچوں کے جسم پر بیماری کے دوبارہ اثر انداز ہونے کی صورت میں یہ دوبارہ مؤثر انداز میں کام شروع کردیتا ہے۔

بچوں کو کس عمر سے پولیو کے قطرے پلوانا چاہئیں؟

ماہرین صحت کے مطابق ایک مرتبہ کسی بیماری کے خلاف مدافعت پیدا کرنے کے لیے لگائی جانے والی ویکسین آپ کو عمر بھر فائدہ پہنچاتی ہے اور بہت ہی ایسی کم بیماریاں ہیں جو آپ کو ویکسینیشن کے باوجود اثر انداز ہوسکتی ہیں۔ مگر پولیو ویکسین ہر بچے کو پانچ سال کی عمر تک بار بار پلوانی چاہیے، بچہ جتنی بار قطرے پئیے گا اس کا مدافعتی نظام وائرس کے خلاف اتنا ہی مضبوط ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان پولیو سے پاک ہونے والا اگلا ملک بن سکتا ہے، عالمی ادارہ صحت

انسداد پولیو کے قطرے بچوں کو پیدائش کے فوری بعد ہی پلائے جاسکتے ہیں، کیونکہ بچہ پیدائش کے کئی مہینوں تک والدین کے رحم و کرم پر ہوتا ہے، اس کی قوت مدافعت بہت کم ہوتی ہے جسے باعث وہ کسی بھی وائرس کے لیے انتہائی آسان شکار ہوتا ہھے۔

اس حوالے سے ڈبلیو ایچ او کی کئی رپورٹس میں بھی اس بات کی طرف نشان دہی کی گئی ہے کہ کسی بیماری کے خلاف ویکسین لگوانے میں تاخیر بچوں میں بیماریوں کا باعث ہوسکتی ہے کیوں کہ ان بیماریوں کے وائرسز یا بیکٹریا آپ کے ماحول میں موجود ہوتے ہیں اور اکثر یہ بیماریاں کسی ایک فرد کی زیادہ قوت مدافعت کی وجہ سے اس پر اثر انداز نہیں ہورہی ہوتی لیکن ایسا فرد کسی اور کو بیماری منتقل کرنے کی وجہ بن سکتا ہے۔


پولیو ٹیم کی جانب سے کسی بھی بچے کو پولیو کے قطرے نہ دیے جانے یا پولیو سے متعلق مزید معلومات کے لیے 1166 پر کال کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں