Dawnnews Television Logo

پولیو ویکسین کی کہانی: اس میں ایسا کیا ہے جو ہر سال 30 لاکھ زندگیاں بچاتی ہے

ویکسینز کی اورل اور ان ایکٹیویٹڈ اقسام اینٹی باڈیز بنانے، مجموعی مدافعت میں بہتری کیلئے پولیو وائرس کے زندہ حصےکااستعمال کرتی ہیں۔
شائع 31 اکتوبر 2020 04:18pm

پولیو میلائٹس، جسے پولیو کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، معذور کرنے والی بیماری ہے جو مکمل طور پر پوری دنیا میں لاعلاج ہے، آج تک دنیا کو اس وائرس سے بچاؤ کے لیے صرف 2 ویکسینز میسر ہیں جو اورل پولیو ویکسینز (او پی ویز) اور ان ایکٹیویٹڈ پولیو ویکسینز (آئی پی ویز) ہیں۔

اگرچہ کچھ مثبت کیسز میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں لیکن دیگر میں بخار، پیٹ میں درد، گلے میں سوزش، متلی، گردن کا اکڑ جانا اور سردرد جیسی علامات رپورٹ ہوتی ہیں۔

یہ بیماری آلودہ پانی کے ذریعے ایک سے دوسرے شخص میں بھی منتقل ہوجاتی ہے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق، ہر سال، حفاظتی ٹیکوں (امیونائزیشن) کی مہم 5 سال سے کم عمر کے 30 لاکھ بچوں کو اس مرض کا شکار ہو کر مرنے سے بچانے میں مدد دیتی ہے جو ہڈیوں کی خرابی کی وجہ بنتا ہے۔

وائرس کیسے حملہ کرتا ہے؟

زندہ پولیو وائرس انسانی جسم میں سب سے پہلے آنتوں میں اپنے خلیوں کو بڑھا کر (replicate) حملہ کرتا ہے، پھر یہ خون کے ذریعے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی تک پہنچ جاتا ہے۔

پولیو وائرس، فالج کا سبب ہوسکتا ہے اگر یہ وائرس اعصابی نظام (nervous system) تک پہنچنے اور اس پر حملہ کرنے میں کامیاب ہوجائے۔

تقریباً ایک کروڑ 80 لاکھ افراد کو اس مرض سے مفلوج ہونے سے بچانے کے لیے، 1950 کی دہائی میں 2 ویکسینز تیار اور فراہم کی گئیں؛ یہ عام طور پر ان ایکٹیویٹڈ پولیو ویکسینز (آئی پی وی) اور اورل پولیو ویکسین (او پی وی) کے نام سے جانی جاتی ہیں۔

دریافت کے بعد سے، اورل پولیو ویکسین، جو سستی ہے اور ترقی پذیر ممالک میں وسیع پیمانے پر استعمال کی جاتی ہے، یہ منہ کے ذریعے مائع قطروں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہے جبکہ ان ایکٹیویٹڈ پولیو ویکسین، جو اب امریکا میں استعمال ہونے والی واحد ویکسین ہے، شوٹس کی سیریز کی صورت میں دی جاتی ہے۔

پولیو ویکسین حقیقت میں کس سے بنی ہے؟

1950 کی دہائی کے اوائل میں ڈاکٹر جونس سالک اور ڈاکٹر البرٹ سیبن کے ہاتھوں ویکسین کی دریافت ایک قابل ذکر پیش رفت تھی۔

وبائی امراض کی تاریخ میں اسے ایک معجزاتی سنگ میل کے طور پر دیکھا جاتا ہے، یہ ویکسینز تقریباً پوری دنیا کو معذور کرنے والے وائرس سے نجات دلانے میں کامیاب رہی تھیں۔

اورل پولیو ویکسین (او پی وی) کو بنانے کے لیے 3 زندہ، کمزور کیے گئے پولیو وائرس سے ایک مرکب بنایا گیا تھا۔

انسانی جسم کو وائرس سے پاک رکھنے کے لیے او پی وی خون میں پولیو وائرس کی تمام تینوں اقسام کے خلاف اینٹی باڈیز بناتی ہے، جب کوئی حملہ ہوتا ہے تو وہ اعصابی نظام کی حفاظت کرتی ہے اور آنتوں سے منسلک ہو کر ایک مدافعتی ردعمل پیدا کرتی ہیں جو انسانی جسم کے اندر پولیو وائرس کا پہلا اور ترجیح گھر ہوتا ہے۔

او پی وی کا یہ ردعمل اسے انسان سے انسان میں منتقل ہونے والے اس وائلڈ وائرس کو روکنے کا سب سے زیادہ وسیع و تسلیم شدہ حل ہے۔

جبکہ او پی وی کو پولیو وائرس کے حصوں کو کمزور کرکے بنایا گیا تھا، آئی پی وی، یا ان ایکٹیویٹڈ پولیو ویکسین میں وائرس کو پاک کیا گیا اور پھر اسے فارم ال ڈی ہائیڈ نامی کیمیکل سے ختم کیا گیا۔

فالج سے بچاؤ کے لیے، ایک آئی پی وی وائلڈ پولیو وائرس آنتوں میں لائننگ کے بجائے وائلڈ پولیو وائرس کو دماغ اور ریڑھ کی ہڈی تک پہنچنے سے روکتی ہے۔

حفاظتی ٹیکوں کے دونوں طریقوں نے وسیع پیمانے پر اپنی کامیابی کے باعث دنیا کے اکثر حصوں میں مقبولیت حاصل کی، لیکن عموماً پولیو شوٹس کو ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ ان میں مردہ وائرس ہوتا ہے جس میں خود کی نقل بنانے کی صلاحیت نہیں ہوتی، جو اس بیماری سے فالج ہونے کی بنیادی وجہ ہے۔

وسیع پیمانے پر اس کو ترجیح دینے کی وجہ ویکسین کے مضر اثرات کو صفر تک کم کرنے میں اورل ویکسین کی ناکامی کی وجہ ہے۔

یہ کہا جاتا ہے کہ ویکسین لگوانے والے ہر 24 لاکھ افراد میں سے ایک میں، او پی وی میں موجود کمزور وائرس، فالج کا سبب بن سکتا ہے۔

تاہم دنیا بھر کے کئی ممالک او پی وی کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہیں کیونکہ یہ نسبتاً سستی، استعمال میں آسان اور قوت مدافعت کو برقرار رکھنے میں اچھی ہے۔

امریکا سے باہر ترقی پذیر ممالک میں بڑے پیمانے پر آئی پی ویز کا استعمال مشکل رہا ہے کیونکہ ویکسین کی زیادہ لاگت کے ساتھ پیداوار کے لیے بائیو کنٹینمنٹ کی یقین دہانی کی صلاحیت موجود نہیں ہے۔

یہ مانا جاتا ہے کہ پولیو وائرس لاکھوں سالوں سے انسانوں پر حملہ کرتا رہا ہے، ہڈیوں کی خرابی کی وجہ بننے والی بیماری کے شواہد 1400 میں مصری نقش و نگار میں موجود ہیں جو پولیو کی موجودگی کی جانب اشارہ ہے۔

یہ بیماری 1800 کے وسط سے قبل بڑے پیمانے پر عام نہیں تھی۔

اس ویڈیو کو ضرور دیکھیں:

1900 میں وائلڈ پولیو وائرس نے طاقت حاصل کی اور ایک وبا میں تبدیل ہوگیا۔

حالیہ دنوں میں، سن 2000 کے بعد، پولیو ایک بیماری بن گیا ہے جس کی جڑیں پاکستان اور افغانستان میں اب بھی موجود ہیں، جہاں فعال کیسز کی بڑی تعداد رپورٹ ہوتی ہے کیونکہ ویکسینیشن کی مہمات کو کورونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے متعدد چیلنجز کا سامنا ہے۔

پاکستان میں اس وقت ملک بھر میں حفاظتی ٹیکوں کی مہم چلائی جارہی ہے جس کا مقصد رواں برس 4 کروڑ بچوں کو پولیو کے قطرے پلانا ہے، جن میں سے 130 اضلاع میں 3 کروڑ 20 لاکھ کے قریب بچوں کو کامیابی سے قطرے پلائے جاچکے ہیں۔


اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔