اودے اودے، نیلے نیلے، پیلے پیلے، قطار اندر قطار۔ نہیں بھئی، یہ رنگ تو نظر نہیں آئے، ہمیں تو کچھ اور دیکھنے کو ملا۔ سرخ سرخ، ملگجے، پھٹے، مڑے تڑے، بوسیدہ، لیکن تھے وہ بھی قطار اندر قطار۔

بال مت نوچیے، اصل میں بتانے والے نے لفظ استعمال کیا قطار اندر قطار۔ لیجیے یاد آگئے اقبال، کیا کریں جب سارا بچپن بانگ درا ہاتھ میں پکڑ کر گزرا ہو تو ماضی کھینچے گا نا اپنی طرف۔

تین باتیں ہوئیں۔ پہلی، ڈاکٹر مینو نے ہمارا مضمون ماہواری اور پتے پڑھ لیا، دوسری ایک اور دوست نے سیلاب میں گھری عورتوں کا ذکر کر ڈالا، تیسری ہمیں ماہواری کی غربت یاد آگئی۔ کیا کریں کہ دماغ کا نیوز روم ہر وقت کھلا رہتا ہے، چار خبریں ادھر کی چار اُدھر کی، اور لیجیے ہوگئی شروع ٹرانسمیشن عوام الناس تک۔

ماہواری اور پتے میں ہمارا واسطہ ایک بچی سے پڑا جو صرف یہ جانتی تھی کہ ماہواری کا خون سنبھالنے کے لیے پتے ہی استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ کپڑا، روئی اور پیڈ جیسی عیاشی اس کی سمجھ سے بہت باہر تھی۔

مزید پڑھیے: پانی سے گھرے ٹیلوں پر بیٹھی حاملہ عورتیں!

موئی ماہواری تو نہیں سمجھتی نا کہ اسے ایسی عورت پر رحم کھانا ہے جس کے لیے پیٹ کی بھوک مٹانا ہی زندگی ہے۔ اگر اسے سمجھ ہوتی تو شاید کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہتی، ان غریبوں کی زندگی کو مزید عذاب میں مبتلا کیوں کروں، 7 دن کیا بہنا، ایک دن ہی کافی اور وہ بھی چند قطرے ثبوت کے لیے کہ ہاں بھئی عورت کا نظام چالو ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ ماہواری اندھی، گونگی اور بہری ہے۔

ہاں تو ہم کہہ رہے تھے کہ ڈاکٹر مینو کو یاد آیا کہ ان کا واسطہ بھی ایک ایسی عورت سے پڑا جو گاؤں سے ان کے ہاں کام کرنے آئی تھی۔ جہاں اور باتیں سمجھائی گئیں وہاں پیڈز کا لفافہ بھی اس کے حوالے کیا کہ لو بھئی تمہاری ماہواری کا بندوبست۔ کچھ ہفتوں کے بعد مینو کو احساس ہوا کہ گھر میں کہیں سے بُو آرہی ہے۔ وہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے ملازمہ کے کمرے کی الماری تک جا پہنچیں اور پٹ کھولتے ہی آنکھیں خیرہ تو نہ ہوئیں البتہ ناک کو مضبوطی سے پکڑنا پڑا۔

الماری کے خانوں میں قطار اندر قطار استعمال شدہ سینٹری پیڈ رکھے گئے تھے۔ دھونے کی ناکام کوشش ماہواری کا خون سمیٹے خستہ حال پیڈز کی حالت مزید پتلا کرچکی تھی۔

یہ کیا بھئی؟

جی دھو کر رکھے ہیں دوبارہ پہننے کے لیے۔

کیوں؟

جی، گاؤں میں ایسا ہی چلتا ہے۔ سب عورتیں ماہواری کا استعمال شدہ کپڑا دھو کر خشک کرکے دوبارہ سے استعمال کرتی ہیں۔

کیوں، پھینکتی کیوں نہیں؟

مزید پڑھیے: ساڑھے 9 برس کی ماہواری اور مردانہ پیڈز!

کہاں سے لائیں اتنا کپڑا؟ ماہواری ہر مہینے 7 دن، 2 جوڑوں کے برابر کپڑا ہو تو کام چلے۔ اتنا کپڑا تو وہی نکالیں گی نا جن کے پاس 15، 20 جوڑی کپڑے ہوں۔ ہمارے پاس تو کُل 2 ہیں، اگر وہ بھی ماہواری میں استعمال کرلیں تو پہنیں کیا؟

اچھا بھئی یہ کپڑا نہیں، پیڈ ہے پیڈ، استعمال کرو، پھینکو، دوسرا لگاؤ۔

اوئی ماں، پھینک دو، یعنی ایک بار کے بعد، اتنا پیسہ ضائع۔

دیکھو، ماہواری کا بندھن زندگی سے جڑا ہے۔ خیال نہ رکھیں تو 100 قسم کے جراثیم جسم کے اندر۔

سچ بولو ہو، لیکن پیٹ نہ بھریں تو کھا جائے گا سب کو، موا جہنم ہے جہنم۔

میں منگوا کر دوں گی تمہیں پیڈ، دھونا نہیں آئندہ سے۔ لگاؤ اور پھینکو۔

آہ ہا، چھٹکی اور بڑی کو بھی مل جاتے تو کیا راحت ہوتی۔

لے دوں گی ان کے لیے بھی۔

نہیں میڈم جی، عادت پڑجائے گی، آپ نہ رہو تو پھر کہاں سے ہم غریب۔ رہنے دو ہمیں ایسے ہی۔ ہمارے یہاں سب عورتیں ایسے ہی زندگی بسر کرو ہو۔

کیا کہیں؟ کچھ کہنے کو ہے ہی نہیں۔

سیلاب میں گھری عورتوں کی بات ہر طرف ہے۔ کیا بھیجیں؟ کیا نہ بھیجیں؟ پیڈ؟ نہیں وہ کیا کریں گی؟ شہری عورتوں کے سے چونچلے نہیں کرتیں وہ؟ پیڈ استعمال بھی نہیں کرنا آتا انہیں؟ دیہاتی عورتیں سیدھی سادھی ہوتی ہیں۔

مان لیا بھائی مان لیا کہ سیدھی سادھی، چونچلوں سے مبرا دیہاتی عورتیں لیکن ذرا یہ بتا دینا کہ عورتیں بھی ہیں وہ یا نہیں؟ نظام چلتا ہے کیا؟ مہینے کے مہینے کچھ جسم سے خارج ہوتا ہے کیا؟ یا وہ بھی شہری عورت کا چونچلا ہے، شوقیہ فنکاری۔

مزید پڑھیے: عورت کے لیے شیلف لائف نامی لفظ استعمال کرنے والوں کو شرم نہیں آتی؟

بس اسی اخراج کا سوچ سوچ کر ہم پریشان ہیں کہ ٹیلوں پر بیٹھی ہوئی کیا کرے گی آخر؟ جسم سے بہتے خون کا کیا انتظام کرے گی؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ 7 دن خون بہتا رہے اور اس کی شلوار رنگین ہوتی رہے، مکھیاں بیٹھتی رہیں اور جراثیم دانت تیز کرتے رہیں؟

بے چاری ماہواری، غریب ماہواری، مسکین ماہواری۔ دنیا بھر میں ماہواری کی غربت کو پیریڈ پاورٹی کا نام دیا گیا ہے۔ ماہواری کا نام لینے میں شرم، ذکر کرنا بے حیائی، ماہواری کا درد غیر اہم، ماہواری پیڈز عیاشی، حائضہ عورت اچھوت، ماہواری سے کراہت، ماہواری کے دن مشکل، یہ ہے ماہواری کی غربت۔

بس اسی اخراج کا سوچ سوچ کر ہم پریشان ہیں کہ ٹیلوں پر بیٹھی ہوئی کیا کرے گی آخر؟—فوٹو: اے ایف پی
بس اسی اخراج کا سوچ سوچ کر ہم پریشان ہیں کہ ٹیلوں پر بیٹھی ہوئی کیا کرے گی آخر؟—فوٹو: اے ایف پی

ماہواری کی غربت پر دنیا بھر میں کانفرنسیں ہو رہی ہیں اور ہمارے یہاں سیلاب میں گھری عورتوں کی ماہواری کا اگر نام لیا جائے تو کچھ کے نزدیک یہ گناہ عظیم، بہت سوں کے لیے جنسی معاملات، مشورے اور انتظامات سو خبردار ماہواری کا اگر کسی نے نام لیا تو۔

بال نوچنے کی کسر رہ گئی اب، نہ نہ نہ آپ کے نہیں، اپنے۔ یہ جرأت کہاں ہم میں؟

تبصرے (0) بند ہیں