منی بیک گارنٹی: ’اگر فلم سمجھ آگئی تو پھر ہنسنا مشکل ہوگا‘
پاکستانی فلمی صنعت میں دھیرے دھیرے فلموں کے بننے کا تناسب ایک بار پھر بڑھ رہا ہے جوکہ بہت خوشگوار بات ہے لیکن اس منظرنامے میں ہماری فلموں کا تخلیقی معیار کس قدر بلند ہوا ہے، اس کے لیے ہمیں ابھی مسلسل اُمیدِ شجر سے پیوستہ رہنا ہے۔
ہمارے فلم ساز اپنے کرداروں سے کتنا انصاف کر رہے ہیں، اس کے لیے ہمیں ان کی فلموں کو باریک بینی سے دیکھنا ہوگا۔ تفریح اور مقصدیت، دونوں کے درمیان یہ فلمیں کہاں اپنی جگہ بنا رہی ہیں اس صورتحال کو سمجھنے کے لیے عید الفطر پر، پاکستان اور دنیا بھر میں ریلیز ہونے والی فلموں میں سے، اپنے موضوع اور کاسٹ کی بدولت اہم سمجھی جانے والی ایک فلم منی بیک گارنٹی کا تفصیلی تبصرہ و تجزیہ پیشِ خدمت ہے۔
کہانی یا اسکرین پلے
اس فلم کے کہانی نویس فیصل قریشی ہیں جو کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ ایک نہایت عمدہ اداکار، ہدایت کار اور لکھاری ہیں، البتہ انہوں نے فیچر فلم پہلی مرتبہ لکھی ہے۔ وہ اپنی اس فلم کی پوری اشتہاری مہم سے فلم ریلیز ہونے تک اس کی کہانی کو چھپانے میں کامیاب رہے۔ ہم بھی کہانی کو یہاں بیان کرکے فلم بینوں کا تجسس ختم نہیں کریں گے۔ لہٰذا اسی تمثیلی انداز میں آپ کو کہانی کی نوعیت سمجھاتے ہیں جس طرح یہ کہانی فلم میں بیان کی گئی ہے۔
اس فلم میں چند ایسے افراد کو دکھایا گیا ہے جو بینک کے باہر موجود ہیں اور وہ مل کر بینک لوٹنے کا منصوبہ تیار کرتے ہیں۔ بینک کے اندر، اس کے سربراہ بننے کی جنگ، کرسی حاصل کرنے کی دوڑ، سیاسی جوڑ توڑ، جاسوسی ہتکھنڈے، امتیازی سلوک، اختیارات کی لڑائی، عہدے کی مدت میں اضافے کی خواہش، صارفین اور ملازمین کا استحصال، عوام سے لوٹ مار اور بہت سارے ایسے تمثیلی پہلو ہیں جن کے ذریعے اس کہانی کو بیان کیا گیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ کہانی کسی بینک کی نہیں بلکہ کسی ملک اور معاشرے کی ہے اور اس کے کردار فرضی نہیں بلکہ حقیقی ہیں۔
یہ بینک لوٹا گیا کہ نہیں؟ ڈکیتی کامیاب ہوئی کہ نہیں؟ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ہیں کہ نہیں؟ بلی تھیلے سے باہر آئی کہ نہیں اور بلی کے گلے میں کسی نے گھنٹی باندھی کہ نہیں؟ اور نو سو چوہے کھانے کے بعد بلی حج پر گئی کہ نہیں؟ اس سمیت بہت ساری ایسی کہاوتیں، فلم دیکھتے ہوئے آپ کو یاد آئیں گی۔ بظاہر تو یہ ایک بہت مزاحیہ فلم ہے اور آپ اسے دیکھتے دیکھتے ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوجائیں گے۔ بقول شخصے، درد جب حد سے بڑھ جائے تو پھر وہ درد نہیں رہتا نہ ہی اس کی تکلیف رہتی ہے اور نہ ہی کوئی دوا اس کے کام آتی ہے۔
یہ فلم دیکھتے ہوئے نہ جانے کیوں ایسا محسوس ہوا کہ ہمیں جن باتوں پر رونا چاہیے، سینما میں لوگ باجماعت اس پر قہقہہ لگاتے رہے۔ اگر فلم سمجھ آگئی تو پھر ہنسنا مشکل ہوگا لیکن صرف ٹکٹ کے پیسے پورے کرنے ہیں اور تفریح غرض ہے تو یہ فلم اور اس کی کہانی آپ کو پسند آجائے گی۔
ہدایت کاری
اس فلم کے کہانی نویس فیصل قریشی ہی اس کے ہدایت کار بھی ہیں۔ انہوں نے اپنے کیریئر میں بہت سارے مزاحیہ سٹ کامز اور کمرشلز لکھے۔ مزاح ان کا بنیادی حوالہ ہے۔ بطور کامیڈین بھی انہوں نے کئی فلموں میں کام کیا لیکن بطور ہدایت کار یہ ان کی پہلی فلم ہے۔
اس میں تو کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ وہ ایک عمدہ فنکار ہیں، البتہ مذکورہ فلم، ان کی فیچر فلم کی ہدایت کاری کے کیریئر کی ابتدا ہے۔ تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے بھرپور کوشش کی لیکن ابھی انہیں فلم ساز بننے کے لیے وقت درکار ہے کیونکہ ایک، دو منٹ کے اشتہار کو 2، 3 گھنٹے میں تبدیل کرنے سے فلم نہیں بنتی۔ سینما اور فلم ایک مزاج ہے، اس کے مطابق خود کو ڈھالنا ہوگا لیکن چونکہ ان کا بنیادی حوالہ ہی مزاح ہے تو بڑی اسکرین پر کچھ خامیاں اس مزاح کے پیچھے چھپ گئی ہیں جبکہ کچھ اس فلم کی بڑی کاسٹ کے پیچھے۔
مثال کے طور پر، فلم شروع ہوتے ہی خراب فریمز دیکھنے کو ملے۔ باورچی خانے کے مناظر میں کیمرہ جھولے لیتا ہوا محسوس ہوتا ہے جیسے کیمرہ مین کے ہاتھ میں رعشہ ہو۔ اب اس کے ساتھ ساتھ اگر موٹا موٹا بیان کردیا جائے تو فلم میں ایک بڑی کاسٹ لے لینا فلم کے معیار کی ضمانت نہیں ہوسکتی۔ البتہ یوں فلم بینوں کی توجہ ضرور حاصل کی جاسکتی ہے لیکن جب اتنی توجہ حاصل کرلیں گے تو اس کے بعد انہیں کچھ بناکر بھی دکھانا پڑے گا۔
اداکاری
فلم میں آدھے فنکار ایسے ہیں جو اپنے کرداروں کے ساتھ انصاف نہیں کر پائے بلکہ ان میں سے اکثریت مس کاسٹ تھی۔ اس کی سب سے بڑی مثال سابق کرکٹر وسیم اکرم اور ان کی بیگم صاحبہ ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ قارئین فلم دیکھ کر فیصلہ کریں کہ ایکٹنگ اور اوور ایکٹنگ میں کیا فرق ہوتا ہے۔
اچھے بھلے اداکار بھی اس میں اپنے کردار میں اترتے دکھائی نہ دیے، البتہ فیصل قریشی (ہدایت کار، جنہوں نے اس فلم میں اداکاری بھی کی ہے) میکال ذوالفقار اور مانی نے اپنے کرداروں سے ممکنہ طور پر انصاف کیا۔ ان کے علاوہ فواد خان، عائشہ عمر، کرن ملک، مرزا گوہر رشید، شفاعت علی سمیت باقی اداکار پوری فلم میں اداکار ہی لگے، کردار بالکل بھی نہیں جو اس کہانی کی اشد ضرورت تھے۔ اس فلم میں لطیفے بازی اور پھکڑ پن کے پورے نمبرز ہیں۔
فلم سازی و دیگر شعبے
اس فلم کے پروڈیوسرز میں ہدایت کار فیصل قریشی خود بھی شامل ہیں جبکہ ان کے علاوہ فلم میں ہی ایک کمزور کردار نبھانے والے شایان خان بھی اس فلم کے مرکزی پروڈیوسر ہیں۔ اداکار میکال ذوالفقار بھی بطور پروڈیوسر اس فلم کا حصہ ہیں۔ ان کے علاوہ زین فاروقی بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ فلم کی سنیماٹوگرافی اور میوزک کے لیے امریکی ہنرمندوں کی خدمات بھی لی گئی ہیں۔ فلم میں ان کا کام دیکھ اور سن کر یقین کرنے کو دل نہیں کرتا کہ یہ امریکی ہنرمندوں کا کام ہے۔
پاکستان، ترکیہ اور تھائی لینڈ میں عکس بند ہونے والی فلم کا پروڈکشن ڈیزائن کمزور تھا۔ دو گیت بھی فلم کا حصہ تھے مگر دونوں نے کوئی خاص تاثر نہیں چھوڑا۔ ان میں سے ایک گیت شہزاد رائے نے گایا لیکن وہ بھی متاثر نہ کرسکے۔
اس فلم کی ڈسٹری بیوشن پاکستان میں آئی ایم جی بی گلوبل کے پاس ہے جبکہ دنیا بھر میں ریلیز کے لیے زیسکو پروڈکشن نامی ادارے کے پاس اس فلم کی نمائش کے حقوق ہیں۔ اس فلم کے دیگر شعبوں میں بھی بس اسی طرح کی ملی جلی صورتحال دیکھنے کو ملی۔ اس فلم کو دیکھتے ہوئے بہت ساری انگریزی فلموں کے فریمز، سینز اور سچویشنز بھی فلم بینوں کو یاد آئیں گی۔ خیر فلم کا نام تو پہلے سے ہی استعمال شدہ اور گھسا پٹا ہے۔
شیر، بکریاں اور گڈریے
اس فلم کے ذریعے تمثیلی انداز میں جو کچھ دکھایا گیا ہے، اگر میں بھی آپ کو تمثیلی انداز میں ہی بتاؤں تو یہ قصہ کچھ ایسا ہے کہ اس فلم میں ایک ایسے جنگل کی کہانی دکھائی گئی ہے جہاں چند شیر، بکریاں اور ان بکریوں کا خیال رکھنے والے یا دوسرے الفاظ ان کو پالنے والے چند گڈریے رہتے ہیں۔ بکریاں جن کو گڈریے پالتے ہیں، وہ ان پر کیا ظلم و ستم ڈھاتے ہیں، فلم میں وہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن جنگل میں بکریاں اور گڈریے کس طرح بار بار شیر کا شکار بنتے ہیں، اس کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی۔
اس فلم کے ہدایت کار فیصل قریشی نے جو کہانی بیان کی ہے اس کے لیے تمام کرداروں کی نمائندگی کا برابر خیال رکھا گیا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ ان کی تمام توجہ ذیلی کرداروں پر رہی۔ فیصل قریشی اس کہانی میں مرکزی کرداروں کو بہت معمولی سا بیان کرکے انہیں گول کرگئے۔ اس کوشش میں کہانی بھان متی کا کنبہ بن کر رہ گئی۔ آخر میں فلم بین سوچتا رہے کہ کون ظالم تھا اور کون مظلوم۔ بقول شخصے:
بھان متی نے کنبہ جوڑا
کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا
اس فلم کے ہدایت کار فیصل قریشی، اگر تمثیل نگاری کے فن سے آشنا نہیں، تو وہ انور مقصود سے ٹیوشن بھی لے سکتے ہیں۔ ورنہ اپنے پیارے دوست، ہم پیشہ و ہم عصر، احسن رحیم کی طرح ہلکی پھلکی رومانوی فلم بنائیں اور عوام کو بے خبری اور بے شعوری کے یوٹیوپیا میں پڑا رہنے دیں۔
آخری بات
پاکستان میں اخبارات، رسائل اور نیوز چینلز پر شائع و نشر ہونے والی خبریں، بیانات اور واقعات، بالخصوص سیاسی موضوعات، ان سب کو اس فیچر فلم میں انڈیل دیا گیا ہے لیکن اس فلم کی کہانی ان خبروں اور بیانات کی طرح ادھوری ہے۔ ذیلی کردار بھی مظلوم نہیں ہیں لیکن مرکزی کردار کے تذکرے کے بغیر ہماری کہانیاں ادھوری ہی رہیں گی۔
ماضی صحافت میں کئی ایسے دور بھی آئے جب اخبار نویسوں کو پوری بات کہنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ ایسی صورتحال میں ایک موقر انگریزی جریدے نے وہ جگہیں خالی چھوڑنا شروع کردیں، جن جگہوں پر خبر چھاپنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ آج وہ خالی جگہیں سب کچھ بیان کر رہی ہیں۔
اسی طرح تاریخ ہو یا پھر فلم، آپ کچھ کہہ نہیں سکتے، یا کچھ کہنے کی اجازت نہیں ہے تو خالی جگہیں چھوڑنا سیکھیں، مستقبل کا مورخ اور ناقد انہیں خود بھرلے گا اور اگر یہ نہیں کرسکتے تو پھر وہی کام کریں، جو آتا ہے اور بس۔۔۔ ہمیں بے خبری اور بے شعوری کے یوٹوپیا میں پڑے رہنے دیں۔۔۔